سرپرائیز کون دے گا، کپتان یا اپوزیشن، تحریر: نوید شیخ

0
75

اوآئی سی کا اجلاس اور یوم پاکستان پریڈ ختم ہوگی تو سیاست کی گاڑی پھر سے چوتھے گیئر میں چلنا شروع ہوجائے گی ۔ بالکل ویسا ہی ہوا ہے ۔

۔ جنرل قمر جاوید باجوہ ، عمران خان ، چوہدری نثار ، مریم نواز ، بلاول بھٹو، عثمان بزدار ، آصف زرداری ، فضل الرحمان ، پرویز الہی ، علیم خان ، جہانگیر ترین، جنرل فیض حمید، نواز شریف ، عامر لیاقت ، خالد مقبول صدیقی، جسٹس قاضی فائز عیسی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے منسوب خبریں میڈیا اور سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں ۔ بھانت بھانت کے تجزیہ اور پیشن گوئیاں شروع ہوچکی ہیں ۔ ہر کوئی اس وقت جاننا کی تگ ودو میں لگا ہوا ہے کہ ۔ حکومت جا رہی ہے کہ نہیں ۔
۔ اتحادی حکومت کے ساتھ ہیں کہ نہیں ۔۔ منحرف اراکین اپوزیشن کے ساتھ ہی ہیں کہ نہیں ۔ ۔ قبل ازوقت الیکشن ہورہے ہیں کہ نہیں ۔۔ اسٹبلشمنٹ نیوٹرل ہے کہ نہیں ۔

۔ سب سے پہلے فوج کی بات کریں تو آج ایک بار پھر آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ نیوٹرل ہیں ۔ ۔ فوج مداخلت کرے تو بھی نہ کرے تو بھی برا بھلا سننے کو ملتا ہے، نوجوان سوشل میڈیا کی طرف نہ دیکھیں،جو چیزیں آرہی ہیں، وہ حوصلہ افزاءنہیں، یہ بڑی تباہی ہے،ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ آپ آرمی چیف اور پاک فوج زندہ باد کا نعرہ لگائیں بلکہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگائیں، سندھ اور بلوچستان کے لوگ انہیں ووٹ دیں جو ترقی چاہتے ہیں، بار بار ایک ہی طرح کے لوگوں کو ووٹ دیں گے تو مسائل کس طرح حل ہوں گے؟ ۔ میڈیا کے لوگوں کے استفسار پر ان کاکہناتھاکہ گھبرائیں نہیں، کچھ ایسا نہیں ہوگا جس سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوں ۔ وہ یوم پاکستان کی پریڈ کے اختتام کے موقع پر میڈیا اورسندھ، بلوچستان اور فاٹا کے نوجوانوں سے غیر رسمی گفتگو کررہے تھے۔ پھر ڈان نیوز کے مطابق انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ آنیوالے دنوں میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اگلا آرمی چیف فاٹا اور بلوچستان سے بھی ہو۔

۔ آخر میں انھوں نے پھر دہرایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ منتخب نمائندے ہی فیصلہ کریں کہ اس ملک کے لیے کیا بہتر ہے سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ تو جو خبر آج انصار عباسی نے دی تھی جس کا صبح سے بہت چرچا چل رہا تھا ۔ اس بیان کے بعد چیزیں بالکل واضح ہوگئی ہیں کہ فوج کسی بھی معاملے میں کوئی بھی اور کسی بھی قسم کا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ۔ پھر عمران خان نے خود بھی آج کہہ دیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی شہباز شریف کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں ۔ یوں اب یہ تمام معاملہ ٹیبل کی بجائے عدالتوں اور سڑکوں پر ہی جاتا دیکھائی دے رہا ہے ۔ ۔ پھر جو آج کی دوسری سب سے بڑی خبر سامنے آئی ہے وہ وزیر اعظم عمران خان کا بیان ہے ۔ جس پر میں اپنے گزشتہ وی لاگ میں تفصیل سے بات کرچکا ہوں مگر اب اس حوالے سے کچھ پیش رفت سامنے آگئی ہے جو آپ کے سامنے رکھنا ضروری ہے ۔۔ وزیراعظم نے اپنی گفتگو میں چوہدری نثار سے ملاقات کی بات کی تھی لیکن اب رپورٹ ہوگیا ہے کہ چوہدری نثار نے ماضی قریب میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تردید کی ہے ۔ یہ ملاقات کچھ عرصہ پہلے نہیں بلکہ ساڑھے تین سال پہلے ہوئی تھی ۔ ۔ پھر اس وقت سب سے بڑا مسئلہ وفاق میں ہے نہ کہ پنجاب میں ۔۔۔ یاد رکھیں چوہدری نثار ایم این اے نہیں ہیں ۔ پھر اگر کپتان ان کو لیں گے تو ان کے اپنے وفاقی وزیر غلام سرور خان کی جانب سے بہت سخت درعمل آنے کی امید ہے ۔ یوں یہ بیل تو مجھے منڈیر چڑھتی نہیں دیکھائی دیتی ہے ۔ ۔ جہاں اتحادی ساتھ چھوڑ چکے ہیں ۔ اپنے پچاس کے قریب لوگ منحرف ہوچکے ہیں تو ہر کسی کے زہن میں سوال آرہا ہے کہ کیسے عمران خان کوئی سرپرائز دے دیں گے ۔ استعفی نہیں دیں گے ۔ تو اس حوالے سے اندازہ یہ ہی ہے کہ وہ کوئی سیاسی اور آئینی بحران نہ پیدا کردیں یا پھر وہ اہم تعیناتی کے حوالے سے قبل ازوقت فیصلہ کردیں ۔ میری چڑیل کے مطابق ان دونوں صورتوں میں کپتان کے مخالفوں کی تیاری پوری کر رکھی ہے ۔

۔ سب سے پہلے تو ن لیگ نے سجی دیکھا کر کھبی مار دی ہے ۔ اس سلسلے میں جو لانگ مارچ ن لیگ نے24کو شروع کرنا تھا اور 25کو اسلام آباد پہنچنا تھا ۔ اب وہ 26کو ماڈل ٹاون سے شروع ہوگا اور 27 کو اسلام آباد پہنچے گا ۔ مت بھولیں
27کو ہی عمران خان دس لاکھ لوگوں کا جلسہ کر رہے ہیں ۔ یوں ایک دو دن میں اسلام آباد نیا battle ground ہوگا ۔ ۔ ساتھ ہی اگر اہم تعیناتی کپتان قبل ازوقت کرتے ہیں تو پھر اینڈ گیم ہے ۔ ۔ شاید اسی لیے اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اس وقت پی ٹی آئی کے اندر بھی تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے ۔ پارٹی کے اندر یہاں تک ڈسکس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ عمران خان کو تبدیل کرکے اگر حکومت بچائی جا سکتی ہے تو بچا لی جائی ۔ میری چڑیل کے مطابق کچھ اہم تحریک انصاف کے لوگ اس فارمولے پر بھی کام کر رہے ہیں ۔ یاد ہوتو گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے کراچی سے بانی رکن نجیب ہارون کا بھی مائنس ون پربیان آیا تھا ۔ اگر غور کریں تو یک دم کچھ وزیر اور مشیر منظر سے غائب ہوگئے ہیں ۔ کیونکہ یہ سوچ اس وقت پی ٹی آئی میں پنپ رہی ہے کہ کم ازکم پارٹی کو تو بچایا جائے ۔ مگر عمران خان کنڑول نہیں ہو پارہے ہیں اوروہ بھپرے ہوئے شیر بنے ہوئے ہیں اور ایک بھی غلطی کا خمیازہ ملک سمیت سب سے زیادہ پی ٹی آئی کو بطور جماعت بھگتنا پڑے گا ۔ ۔ یاد رکھیں کبھی بھی ایک منتخب وزیر اعظم شور نہیں مچائے گا کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل کیوں ہوگئی ہے ۔ سیاست میں مداخلت کیوں نہیں کر رہی ہے ۔ ٹیلی فون کالز کیوں بند کر دی گئی ہیں ۔ پر سلیکٹڈ ضرور ایسا ہی کرے گا ۔۔ آپ دیکھیں پوری اپوزیشن اور قوم نیوٹرل ہونے پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو شاباش دے رہی ہے لیکن عمران خان کبھی انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی منت ترلہ کرتے ہیں اور کبھی دھمکیاں دیتے ہیں کہ میں پہلے سے زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا۔ سرپرائز دوں گا ۔

۔ عمران خان کو صرف اس بات پر غصہ ہے کہ وہ آئین پر عمل کیوں کررہے ہیں اور ماضی کی طرح میرے لیے تمام الزامات اپنے سر کیوں نہیں لیتے؟ ۔ اگر یاد ہو تو عمران خان اپنی ہر دوسری تقریر میں ایک چیز ضرور دہراتے ہیں کہ میں نے تو زندگی میں سب کچھ حاصل کر لیا ہے پیسہ شہرت مجھے کیا ضرورت جب چاہوں آرام سے باہر جاکر مزے کی زندگی گزار سکتا ہوں۔ ۔ مگر اب ان کے ایکشن اور اقدامات سے واضح ہو گیا کہ اقتدار اُنہیں ہر شےسے زیادہ عزیز ہے۔ ۔ پھرعمران خان نے جو کہا تھا کہ جانور نیوٹرل ہوتا ہے ۔ اس کا جواب آج بلاول نے دینے کی کوشش کی ہے انکا مالاکنڈ جلسے سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ ہمارا وزیر عظم جنگل کا قانون چاہتا ہے ، ہمارا وزیر اعظم جانور ہے ۔ ہم کوئی غیر جمہوری طریقہ استعمال نہیں کریں گے،میں گیٹ نمبر چار کو نہیں کھٹکٹاوں گا۔ وزیر اعظم اپنے بچوں کو اردو سکھائیں ۔ سازش سازش کا واویلہ مچانے والے خود ایک سازش ہیں ۔ ۔ دیکھائی یہ رہا ہے کہ کپتان جتنے تجربے اور زور لگا سکتے تھے لگا چکے ہیں ۔ اپوزیشن نے بڑی کامیابی ان کی ہر ۔۔ ان سوئنگ ، آؤٹ سوئنگ، ریسورس سوئنگ ، یارکر اور باونسر کا مقابلہ کیا ہے ۔ یوں جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے میچ کپتان کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے ۔ فی الحال بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ کپتان نے جیسے پہلے ایک اہم تعیناتی کے موقع پر مخصوص تاریخ کو ہی یہ کام کرنے کو بہتر سمجھا تھا ۔ اب بھی کچھ کے خیال میں کپتان تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بھی کسی شُب گھڑی کا انتظار کر رہے ہیں ۔ ۔ دراصل کپتان کی غلطیاں اور کوتاہیاں ایک طرف اصل مسئلہ ان کی ضِدوں اور جھوٹی اناؤں کا ہے ۔۔ یہ ضد اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ انتخابی جلسوں میں الیکشن کمیشن کے روکنے کے باوجود، نوٹس جاری کرنے کے باوجود کپتان شرکت کر رہے ہیں اور پھر جو لب و لہجہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ احتجاجی تحریک کا رنگ ڈھنگ لئے ہوئے ہے۔ اپنے آپ کو ہی عقل کل سمجھنا ، اچھا سمجھنا ، باقی سب سے بہتر سمجھنا ایک بہت بڑی بیماری ہے ۔ جس کا اس وقت یہ حکومت اور حکمران شکار ہیں ۔ کیونکہ تاریخ ہو ، فلسفہ ہو ، آئین ہو ، قانون ہو ، جمہوریت ہو یا مذہب ہو ہر چیز پرجب آپ خود ہی اتھارٹی ہوں تو پھر کسی کا کیا مشورہ سننا یا بات ماننی ۔ یہ ڈکیٹیٹر شپ نہیں تو کیا ہے ۔ بلکہ آئین و قانون کی خلاف ورزیوں سے لگ رہا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم نہیں کپتان بادشاہ بنے ہوئے ہیں ۔

۔ کون جیتے گا یا کون ہارے گا یہ اللہ بہتر جانتا ہے پر اگر تمام تر حالیہ واقعات کو سامنے رکھ کر سیاسی بھونچال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو مختصراً یہ ہی سمجھ میں آتاہے کہ ہٹ دھرمی جیت رہی ہے۔ جمہوریت ہار رہی ہے۔ یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہوس اقتدار جیت رہی ہے امن، خوشحالی کی خواہش دم توڑ رہی ہے۔ ۔ بہرحال کپتان کا تمام بیانیہ اور تقریریں بحیرہ عرب میں غرق ہوتی دیکھائی دے رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ چیز واضح ہوگی ہے کہ اب فون کال کسی کو نہیں جائے گی جو کرنا ہو گا کپتان کو اپنے زور باوز پر کرنا ہوگا ۔ ۔ عقل تو یہ ہی کہتی ہے کہ کپتان اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے کہ وہ قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں ۔ اپنے منصب سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیں۔ لیکن وزیر اعظم ایسا نہیں کریں گے ۔ ۔ کیونکہ اس وقت کپتان صرف وہ سننا چاہ رہے ہیں جو ان کے کانوں کو اچھا لگے تو ان کے اردگرد لوگ بھی وہ ہی کچھ بتا یا سنا رہے ہیں کہ جس سے کپتان خوش رہے اور بدلے میں کہے شاباش میرے کھلاڑیوں ، ٹائیگروں ۔۔۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ کہانی ختم ہوچکی ہے ۔

Leave a reply