تعلیم کا اصل مقصد کیا ہے،؟! تحریر: تیمور خان

0
258

 

جب میں اپنے معاشرے کے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں جن میں سب سے اہم سوال تعلیم کے متعلق ہے۔  شاید تعلیم کندھوں پر بڑھتے بوجھ کا نام ہے ، شاید تعلیم ان پرانی کتابوں کا نام ہے ، شاید تعلیم ایک ایسی دوڑ ہے جس میں ہر انسان دوسرے انسان کو پیچھے چھوڑنا چاہتا ہے ، شاید تعلیم کی اہمیت صرف ایک کاغذ پر مبنی ہے  جس کو ہم ڈگری کہتے ہیں اور وہ اس تک محدود ہے۔  آخر ایسی تعلیم کا کیا فائدہ ہے جس کا وہ مطلب نہیں جانتے کہ میں نے کیا پڑا کیا لکھا؟

 ہماری نظر میں صرف وہی لوگ ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں جو اچھی انگریزی بولتے ہوں، اچھے کپڑے پہنتے ہوں، وہی لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ سمجھے جاتے ہیں ، ہمارا ذہن ان باتوں کو کیوں مانتا ہے؟  ہمیں تعلیم حاصل بھی کرتے ہیں اور ہمیں سکھایا بھی جاتا ہے لیکن ہمیں تعلیم کا صحیح مطلب اور مقصد نہیں سکھایا جاتا۔  اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ ہمارے خیال میں تعلیم کا اصل مقصد کیا ہے تو ہم کہیں گے کہ ہمیں ڈاکٹر ، انجینئر ، وکیل پائلٹ ہو ٹیچر بننا ہے اور پیسہ کمانا ہے ، لیکن تعلیم کی اہمیت اور مقصد ان چند الفاظ کے گرد گھومتا ہے؟   تعلیم صرف پیسہ کمانے کے لیے نہیں ہے ، تعلیم صرف ڈگری یا نوکریاں حاصل کرنے کے لئے ہرگز نہیں ہے ہماری سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی نے درست کہا ہے کہ جب تعلیم کا بنیادی مقصد نوکری حاصل کرنا ہوتا ہے تو معاشرے میں صرف نوکر ہی پیدا ہوتے ہیں نہ کہ لیڈر اور یہی آج کل میں اپنے معاشرے میں دیکھ رہا ہوں۔

 افسوس کی بات ہے کہ جن کے پاس ڈگریاں ہیں ، ہم ان کو پڑھا لکھا سمجھتے ہیں اور جن کے پاس ڈگریاں نہیں ہیں ، ہم انہیں جاہل سمجھتے ہیں ، لیکن میرا خیال ہے کہ ہر وہ شخص جو صحیح اور غلط اور اچھے یا برے میں فرق پڑھے کیونکہ میں نے دیکھا ہے  پڑھے لکھے میں جاہل لوگوں کو  اور جاہلوں میں پڑھے لکھے کو بھی،  اگر ہم تعلیم کے معنی کو غور سے سمجھنے کی کوشش کریں تو علم انسان کی تیسری آنکھ کی طرح لگتا ہے۔

 دو آنکھوں سے ہم دنیا کے خوبصورت مناظر دیکھتے ہیں مگر علم کی آنکھ سے ہم عقل اور سمجھ کے مشکل مراحل سے گزرتے ہیں۔  جاہل اور پڑھے لکھے میں کوئی فرق نہیں۔  میری نظر میں جاہل وہ ہیں جو اپنے علم کے باوجود ناانصافی کرتے ہیں ، اپنی صلاحیتوں کا غلط استعمال کرتے ہیں۔  میری نظر میں وہ لوگ بھی جو صرف جہالت اور بے ہوشی کی فہرست میں ہیں ان کی فہرست میں جو پڑھاتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ کچھ نہیں کرتے۔  

 عمل کے بغیر علم برائی ہے اور علم کے بغیر عمل گمراہی ہے ، یعنی علم اور عمل دونوں ضروری ہیں ، کوئی بھی کافی نہیں ہے۔  اگر علم آنکھ ہے تو عمل اس کا وژن ہے ، اگر علم زندگی ہے تو عمل شعور ہے ، اگر علم تعلیم ہے تو عمل تربیت ہے ، اگر علم پھول ہے تو عمل خوشبو ہے۔  علم شعور ہے۔  علم بنیادی طور پر قابلیت ، قابلیت اور ذہن کی کشادگی کا نام ہے ، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم نے خود ان چیزوں کو جاننے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کسی نے ہمیں یہ باتیں بتانے کی زحمت کی۔  اور آج ہم اس فرق کو بھول گئے ہیں اور ہماری برتری صرف ڈگریاں اور نوکریاں ہیں اور ہم انسانیت سے اس قدر دور چلے گئے ہیں کہ واپسی کی کوئی علامت نہیں ہے۔

اس جدید دور میں ، تعلیم کا مقصد اس بات کو پوری طرح پہنچانے کے لیے کافی نہیں ہے کہ صرف سیکھنا ہماری زندگی میں کیا نکات لاتا  ہے۔  تعلیم ایک سے زیادہ مقاصد کو پورا کرتی ہے – ایک ایسے سپیکٹرم کے ذریعے جو ہماری زندگی کے معاشی ، سماجی اور ثقافتی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔  یہ اب محض خیالات اور علم کو آنے والی نسلوں تک منتقل نہیں کر رہا ہے اور نہ ہی یہ صرف مالی مستحکم کیریئر کی تیاری کے لیے ہے۔  یہ ان خیالات کو بھی لے رہا ہے اور انہیں ہماری زندگیوں اور ہمارے آس پاس کی دنیا میں لاگو کر رہا ہے۔  اس کے نتیجے میں ، تعلیم کی کثیر جہتی نوعیت اپنے شاگردوں میں ہمہ گیر ثقافتی تنوع کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے ، ہمارے مطالعے میں تنقیدی سوچ کی وکالت کرنے ، اور ایسے مواقع لے کر ہماری زندگیوں کو تقویت دینے کی کوشش کرتی ہے جو ہماری زندگیوں میں اضافہ کرتے ہیں۔  دنیاوی تجربات  تعلیم کے ان پہلوؤں کو پورا کرتے ہوئے ، یہ ضروری قدم ہمیں علم اور حکمت مہیا کرتے ہیں جو معاشرے اور جوانی میں ہماری شروعات کو تیار کرتے ہیں, تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے، کہ ہمیں تعلیم کو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کو سمجھنا بھی چاہئے، تاکہ ہمارا آنے والا کل روشن ہو، اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

@iTaimurOfficial

Leave a reply