محسن بیگ کیس میں ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

0
39
islamabad hoghcourt

چار افراد تھے،ایک گرفتار کیوں؟ جمہوری ملک میں ایسا کرنا تو عدالتوں کوبندکردیں،عدالت
سینئر صحافی محسن بیگ کے خلاف درج 2 مقدمات کے اخراج کی درخواستوں پر سماعت ہوئی

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی،عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو آزادانہ انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا ،دوران سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے سائبر کرائم پربرہمی کا اظہار کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت ڈائریکٹر سائبر کرائم کیخلاف کارروائی کیوں نہ کرے؟ جمہوری معاشرے میں یہ سب ناقابل برداشت ہے پولیس کیس میں قانون کیمطابق کارروائی کیوں نہ چلنے دیں؟ بے شک چھاپہ غلط طریقے سے ہوا ہو کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں،ریاست کی رِٹ بھی کوئی چیز ہوتی ہے ،

عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ محسن بیگ کو گرفتار کیا، تھانے میں آمد روانگی کا مکمل ریکارڈ موجود ہے،
محسن بیگ نے گرفتاری کے موقع پر ایف آئی اے کے دو اہلکاروں کومارا،حوالات لے جاتے ہوئے شدید مزاحمت کی، جھگڑا گیا ، تھانے میں آنے کے بعد پھر جھگڑا ہوا،محسن بیگ کی گرفتاری، تھانے میں آمد روانگی کا مکمل ریکارڈ موجود ہے معاملے کی رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کر دی گئی ۔ کیس کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ریاست کی رٹ ہونی چاہئے؟ بے شک کوئی ان کے گھر غلط گیا ہو گا مگر قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟ اس سے متعلق جو بھی دفاع ہے وہ متعلقہ ٹرائل کورٹ میں پیش کریں۔

وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت میں کہا کہ محسن بیگ کے خلاف 4مقدمات درج کر لیے گئے ہیں، کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں 2 مقدمات درج کیے گئے، ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ وکیل کو تھانے میں رسائی دی گئی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ شکایت کنندہ اسلام آباد میں تھا تو مقدمہ لاہور میں کیوں درج ہوا؟ کیا ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈر کی ساکھ کی حفاظت کے لیے کام کر رہا ہے؟ ایف آئی اے کا کون سا ڈائریکٹر ہے جو آئین کو مانتا ہے اورنا قانون کو؟ یہ کسی ایک فرد کا نہیں شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا معاملہ ہے،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایف ائی اے وکیل سے سوال کیا کی آپ نے انکوائری کی یا کوئی نوٹس جاری کیا ؟ چیف جسٹس نے وکیل پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ نوٹس جاری نہ کر کے آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی ،یہ کیس اختیارات کے غیر قانونی استعمال کی اعلیٰ مثال ہے،آپ دلائل دیئے جارہے ہیں کیا خود کو قانون سے اوپر سمجھ رہے ہیں ؟آپ نے کارروائی کی کیونکہ شکایت کنندہ ایک وزیر تھا،

ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ڈائریکٹرایف آئی اے سے سوال کیا کہ آپ نے اس عدالت میں کیا بیان حلفی دیا تھا؟ آپ نے کیا ایس او پی بنایا تھا،اس عدالت نے واضح کہا تھا کہ کسی کو گرفتار نہیں کیا جائے گا،ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ سیکشن 20 پر تھا، یہ سیکشن 21 کے تحت کارروائی تھی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ یہ عدالت آپ کے خلاف کارروائی کریگی،ایف آئی اے کا کام لوگوں کی خدمت کرنا ہے، ایف آئی اے کا کام پبلک آفس ہولڈر کا تحفظ نہیں، یہ مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہو گا، یہ عدالت کتنے عرصے سے آپ کو موقع دے رہی ہے، ہر کیس میں ایف آئی اے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہا ہے،یہ عدالت ہر بار ایف آئی اے کو بتا رہی ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ لاہور میں کمپلینٹ کیوں دی گئی؟ جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ وفاقی وزیر نے لاہور میں درخواست دی، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی وزیرلاہور دورے پرگئے ہوئے تھے؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ 15فروری کو شکایت درج کرائی گئی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی اے نے پہلے نوٹس جاری کیا؟ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت میں بیان دیا کہ نہیں، نوٹس جاری نہیں کیا گیا،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈائریکٹر ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ آپ پڑھ کر بتائیں کس جملے سے ہتک عزت کا پہلو نکلتا ہے؟ جس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے نے مراد سعید سے متعلق محسن بیگ کا جملہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اس جملے میں کتاب کا حوالہ ہے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کتاب کا صفحہ نمبر محسن بیگ نے پروگرام میں بتایا ہے؟ جس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے جواب دیا کہ نہیں، یہ بات پروگرام میں نہیں کی گئی ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جمہوری ملک میں ایسی کارروائیاں کرنی ہے تو عدالتوں کو بند کر دیں آپ اپنی کارروائی کا دفاع بھی کیسے کر سکتے ہیں یہ عدالت آپ کو شوکاز جاری کرتی ہے ، ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت میں کہا کہ ہم آپ کے بچے ہیں،جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ میرے بچے ہیں نا میں آپ کا باپ ،میں یہاں قانون پر عمل کے لیے ہوں،کیا ایف آئی اے نے گرفتاری سے پہلے کوئی انکوائری کی؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ اگر انکوائری کرتے تو ملزم کو پتہ چل جاتا اور وہ شواہد مٹا دیتا،عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس کتنے کیسز زیرالتوا ہیں؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ 14ہزار کیسز زیر التوا ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے تمام کیسز میں گرفتاریاں کیں؟ آپکا کیس اس عدالت میں زیرسماعت ہے،آپ نےعدالت اور سپریم کورٹ کو بیان حلفی دیا کہ آپ ایس او پی پر عمل کرینگے،آپ وفاقی حکومت اور ایف آئی اے کو شرمندہ کر رہے ہیں،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سی ایس ایس کیا ہے؟ آپ جو پڑھ رہے ہیں اسکا مطلب بتائیں، ایف آئی اے کے سربراہ کا سر شرم سے جھک جانا چاہیے، کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے؟ ایف آئی اے نے اپنے اقدام سے خود کو ہی شرمندہ کر دیا ہے،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ ٹاک شو میں 4 افراد تھے، ایک کو گرفتار کیا، کیا ملزم نے خود ویڈیو شیئر کی تھی ؟ڈائریکٹر سائبر ونگ نے کہا کہ قانون موجود ہے کس کیخلاف کارروائی کریں، عدالت نے کہا کہ کیا آپ قانون سے بالاتر ہیں ،عدالت نے استفسار کیا کہ پروگرام میں کتنے لوگ بیٹھے تھے ،ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ پروگرام میں 4 لوگ تھے،عدالت نے ڈائریکٹر ایف آئی اے کو پروگرام میں محسن بیگ کے الفاظ پڑھنے کی ہدایت کردی اور پھر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو باتیں آپ نے پڑھیں اس میں کیا ڈیفامیٹری ہے ؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ ریحام خان کی کتاب کاریفرنس ڈیفامیٹری ہے، عدالت نے کہا کہ کیا ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈر کیلئے ہے یا لوگوں کیلئے؟ ہر بار آپ کو سمجھایا کہ ایسا نہ کریں،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کے قانون میں ہے کہ آپ نے پہلے انکوائری کرنی ہے، آپ نے کوئی انکوائری نہیں کی کیونکہ شکایت وزیر کی تھی ٹاک شو ٹیلی وژن پر ہوا تو پھر متعلقہ سیکشن کا اطلاق نہیں ہوتا ،ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے کہا کہ جب وہ ٹاک شو فیس بک، ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو ہم نے کارروائی کی، جس پر عدالت نے پوچھا کہ آپ نے کیا انکوائری کی؟ کیا ملزم نے وہ کلپ سوشل میڈیا پر وائرل کیا؟ اس پروگرام میں کتنے لوگ تھے؟ سب نے وہی بات کی تو باقی تینوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟ ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے نے جواب دیا کہ باقی لوگوں نے وہ بات نہیں کی جو محسن بیگ نے کی، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ کو اس بات کا یقین ہے؟ کیا آپ نے وہ کلپ دیکھا ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اعتراف کر لیا کہ محسن بیگ کیخلاف ایف آئی اے کی پیکا کی سیکشن 21 کے تحت کارروائی نہیں بنتی تھی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جنسی طور پر ایکسپوز کرنے والی یہ سیکشن لگا کر ایف آئی اے نے شکایت کنندہ کو بھی شرمندہ کیا ہے، ایف آئی اے نے جو دفعات لگائیں ان پر انہیں شرمندہ ہونا چاہیے،اس سے زیادہ اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہو گا، کیا آپکو معلوم ہے پوری دنیا میں ہتک کے قانون کو کس طرح چلایا جاتا ہے، ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ نے قانون بنایا ہے اور میں اس پر عمل کر رہا ہوں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ آپ پھر اس عدالت میں پیش کیوں ہوئے ہیں؟آپ نے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی،آپ نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا یہ عدالت آپکے خلاف کارروائی کریگی،یہ عدالت اٹارنی جنرل کولا رہی ہے، ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت میں کہا کہ وہ میرا دفاع کیوں کرینگے،جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ ایک فرد نہیں بلکہ ایک ادارے کی نمائندگی کر رہے ہیں، آپ لکھ کر دیں کہ آپکو کس نے ہدایات دی تھیں؟ یہ دو مختلف کیس ہیں ملزم نے کیا کیا یہ عدالت اس میں نہیں جائے گی،ایف آئی اے نے جو کیا یہ عدالت اس کو نہیں چھوڑے گی، ایف آئی اے نے لوگوں کی خدمت چھوڑ کر پیکا پر کام شروع کر دیا ہے ایف آئی اے مسلسل اختیارات کا غلط استعمال کررہا ہے

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ کتاب میں کیا لکھا تھا وہ سب جانتے ہیں،جس پر عدالت نے کہا کہ سب کیا جانتے ہیں، آپ جانتے ہونگے، عام شکایت ہوتی تو پھر بھی گرفتاری نہیں بنتی تھی یہ تو پبلک آفس ہولڈر کی درخواست تھی،ایف آئی اے پوری دنیا میں کیا پیغام رے رہی ہے، یہ ایک آئینی عدالت ہے اور یہ آئین کے تحت چلنے والا ملک ہے،گرفتاری ایک دھمکی ہے کہ اظہار رائے کی کوئی آزادی نہیں، یہ عدالت برداشت نہیں کریگی، ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کیلئے مسلسل اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہی ہے، افریقہ کے ملکوں نے بھی ہتک کو فوجداری قوانین سے نکال دیا ہے، صحافیوں کیلئے پاکستان غیرمحفوظ ممالک میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے، یہ اسی وجہ سے ہے کہ یہاں اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے، اگر آپ میرٹ پر بات کرنا چاہتے ہیں تو بتائیں کہ کیا فحاشی ہے، اگر کوئی کتاب کا حوالہ دیتا ہے تو فحاشی کیا ہے اگر کوئی کتاب کا حوالہ دے کر دھمکا رہا ہے تو اس کتاب میں کچھ ہو گا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ کیوں خود کو شرمندہ کر رہے ہیں، کیا مراد سعید کا نام کتاب کے صرف ایک صفحے میں لکھا ہے،جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے وہ کتاب نہیں پڑھی، عدالت نے کہا کہ پھر آپ کس طرح یہ بات کر رہے ہیں،ایڈییشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ ہمیں فحش گوئی کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی،جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سب سے بڑی فحاشی آئین کا احترام نہ کرنا ہے،بڑی فحاشی اظہار رائے پر پابندی لگانا، اختیار کا غلط استعمال کرنا ہے،اختیارات کے ناجائز استعمال سے کسی کی عزت نہیں بچتی، یہ ہمارا احتساب ہے،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پیکا کی سیکشن 21 ڈی تو اس کیس میں کسی طور نہیں بنتی تھی، اب اس کیس میں عدالت کیا کرے، عدالت نے بار بار سمجھایا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس عدالت نے بارہا ایف آئی اے کو سمجھایا ہے،عدالت نے کہا کہ یہ عدالت بار بار یہ کہتی رہی ہے کہ آپ محتاط رہیں مگر کیا میسج دیا جا رہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی نہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری ریڈنگ پر بھی سیکشن 21 ڈی نہیں بنتا،عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے کے اختیارات کے غلط استعمال پر تشویش ہے،

محسن بیگ کیس میں ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم بابر بخت کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا گیا،عدالت نے حکم دیا کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے اپنا بیان حلفی عدالت میں جمع کرائیں، عدالت کو مطمئن کریں کہ آپ نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیوں کیا،اگر آپ عدالت کو مطمئن کر دیتے ہیں تو نوٹس ختم ہو جائے گا، عدالت نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا اورکہا کہ اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہو کر ایف آئی اے مقدمے کا دفاع کریں، چیف جسٹس کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی گئی ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے اٹارنی جنرل کو بھی پیش ہونے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ اٹارنی جنرل بھی پیش ہوکر معاونت کریں،اٹارنی جنرل بتائیں کیا محسن بیگ کیخلاف ایف آئی اے کیس کا دفاع کریں گے ؟

محسن بیگ کی غیر قانونی گرفتاری پر عدالت نے بیلف مقرر کر دیا، پیش کرنیکا حکم

مارگلہ کی پہاڑیوں پر تعمیرات پر پابندی عائد

ایف نائن پارک میں شہری پر حملے کا مقدمہ تھانہ مارگلہ میں درج کر لیا گیا

وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی بھی اسلام آباد پولیس کے خلاف بول اٹھے

اسلام آباد جرائم کا گڑھ بن گیا، روز پولیس مقابلے، ڈکیتیاں، وجہ کیا؟ تہلکہ خیز انکشاف

محسن بیگ نے کچھ بولا ہی نہیں اب تو پوری دنیا آپ کے راز کھولے گی،ریحام خان

محسن بیگ کو گرفتار کیوں اور کس کے کہنے پر کیا گیا؟

سادہ کپڑوں میں چھاپہ مارا گیا،سمجھا ڈاکو گھس آئے،محسن بیگ کا عدالت میں بیان

محسن بیگ کی گرفتاری کیخلاف پی ایف یو جےکا ملک گیر احتجاج کا اعلان

محسن بیگ کےگھر پرچھاپہ غیر قانونی ہے:عدالت کافیصلہ

مریم نوازمحسن بیگ کے بیانیے کے ساتھ کھڑی ہوگئیں

محسن بیگ کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ ختم کرنے کی درخواست سماعت کے لئے مقرر

مزید کئی صحافی بھی حکومتی نشانے پر ہیں،عارف حمید بھٹی کا انکشاف

محسن بیگ کی گرفتاری، اقرار الحسن پر تشددکیخلاف کئی شہروں میں صحافی سراپا احتجاج

کسی جج کو دھمکی نہیں دی جا سکتی،عدالت،محسن بیگ پر تشدد کی رپورٹ طلب

ایس ایچ او کے کمرے میں ایف آئی اے نے مجھے مارا،محسن بیگ کا عدالت میں بیان

جس حوالات میں آج میں ہوں جلد اسی حوالات میں عمران خان ہوگا۔ محسن بیگ

وزیراعظم کا بیان دھمکی،اس سے بڑی توہین عدالت نہیں ہوسکتی ،لطیف کھوسہ

آخر ریحام خان کی کتاب میں ایسا کیا ہے جو قومی ایشو بن گیا،حسن مرتضیٰ

محسن بیگ کیس،فیصلہ کرنیوالے جج کے خلاف ریفرنس دائر کیا تو..اسلام آباد بار کا دبنگ اعلان

گرفتار محسن بیگ پر ایک اور مقدمہ درج

کامیاب تحریک عدم اعتماد،محسن بیگ،پاکستانی صحافت اور ہمارا پوری دنیا میں نمبر

Leave a reply