پاکستان پیپلزپارٹی کاماضی،حال اور مستقبل

0
36

پاکستان پیپلزپارٹی کے حوالے سے لکھنے سے پہلے کچھ ابتدائی نقشہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں ،پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے ارتقا کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے دلچسپت اورقابل غورپہلوسامنے آتے ہیں،کوئی اپنی سیاسی بقا کے لیے پارٹی کا قیام عمل میں لاتا ہے تو کوئی کسی سے سیاسی مفادات کے ٹکراو کے بعد سیاسی جماعتیں بناکرعوام کوبڑے بڑے سبزباغ دکھانے کا ڈرامہ رچاتے ہیں،پاکستان میں ایسی بھی پارٹیاں ہیں جن کو ڈکٹیٹروں نے اپنے اقتدار کوطول دینےاوراپنی کوتاہیوں پرپردہ ڈالنے اوران جرائم کا دفاع کرنے کے لیے جماعتیں تشکیل دیں‌ ،قیام پاکستان سے لیکراب تک سیکڑوں پارٹیاں وجود میں آچکی ہیں، ان سب جماعتوں نے اپنے آغاز سے لیکرآج تک عوام کو ایک دوسرے سے لڑا کراپنے مفادات حاصل کیے،لیکن عملا کچھ نہیں کیا

قیام پاکستان سے ہی مسلم لیگ نے اس وقت کے متحدہ پاکستان میں کسی دوسری پارٹی کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ، اس پارٹی کے بڑوں نے شاید یہ سمجھ لیا کہ چونکہ قیام پاکستان کی تحریک میں مسلم لیگ نے مرکزی کردار ادا کیا تھااس لیے کسی دوسری جماعت یا کسی ایسے دوسرے فرد کواہل پاکستان سے روابط ان کی خدمت اوران کوباشعور کرنے کے عمل کوتوہین اورمسلم لیگ کے معاملات میں مداخلت تصورکیا جاتارہا اوراگرکسی جماعت یا شخص نے عوامی خدمت کرنے کا نعرہ لگایا تو اس کو اسلام مخالف،پاکستان دشمن اور مسلمانوں کا حریف سمجھ کردیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور یہ ایک خاص جماعت اسلام کے نام پرپاکستان کے مذہبی لوگوں کے ذریعے کرتی رہی ہے اور آج بھی درپردہ کررہی ہے،ان جماعتوں نے عوام کی خدمت کی بجائے اپنے مخالفین کی کردارکُشی کی ذریعے سیاست کی اوراپنا سیاسی مجن بیچا، ساتھ ہی ملک کے اندرایک نظریاتی ،لسانی اورعلاقائی تعصب پیدا کرکے ملک و قوم کو اتنے گہرے زخم لگائے کہ آج تک وہ زخم مندمل نہیں ہورہے،ان حالات میں میں آج کچھ حقائق لکھنے پرمجبورہوا ہوں اور اس سیاسی کشمکش کے دوران ہونے والے نقصان اور اس کے ازالے کے حوالے سے کچھ حقائق پرمبنی خیالات رکھتا ہوں جن کوبیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں

میرا موضوع پاکستان پیپلزپارٹی کا ماضی ، حال اور مستقبل ہے تو ادھر ادھر جانے کی بجائے میں بغیرتمہید کے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں ،پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام سے لیکرآج تک اس پارٹی اورپارٹی کے قائدین خاص کربانی خاندان کے خلاف نفرتوں‌،مخالفتوں اوردشمنیوں کے پیچھے وہی لوگ ہیں جنہوں نےمذہب کی آڑ میں سیاست کی اوراپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے منبرومحراب کو استعمال کیا،جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے،قیام پاکستان کےبعد اس پارٹی کی قیادت پرکچھ خاص لوگ آکربیٹھ گئے جنہوں نےاپنی نااہلی اورکمزوریوں کو چپھانے کے لیے فتووں کاسلسلہ شروع کردیا جس نے اس متحدہ پاکستان میں نفرتوں اوراختلافات کی بنیاد رکھی، یہ وہی مسلم لیگ ہےجس کےسائے تلےسابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ان کےوالدمحترم سرشاہنواز بھٹو نے قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کی مگراس پارٹی پرکچھ ایسے لوگوں نے قبضہ کرلیا جن کے رویے نے پاکستان میں ایک نئی پارٹی کے وجود کو ضروری قراردیا

نئی جماعت جس کی بنیاد سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے 1967 میں رکھی بنیادی طورپریہ اس وقت معاشرتی مطالبات اورضروریات کے تحت قائم کی گئی ،نہ تو اس کا مقصد مسلم لیگ کوچیلنج کرنا تھا اور نہ ہی اس سے محاذ آرائی کا کوئی مقصد تھا، نہ یہ کسی مذہبی جماعت یا کسی دینی جماعت کے منشور کو پش پُشت ڈالنے کےلیے بنائی گئی تھی، اس کے قیام کی وجوہات ، اس ملک کی معاشی،معاشرتی،خارجی ، داخلی اوراس کےساتھ ساتھ عالمی حالات کے تقاضوں کے مطابق تھی، کیوں کہ اس جماعت کے بانی ذوالفقار علی بھٹواس وقت کے دیگرقومی رہنماوں کی نسبت عوام کے مسائل سے زیادہ واقف تھے ،عوام کی مشکلات کو دیکھ کربے چین تھے،اور سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے چپے چپے کے حالات سے واقف تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ صدر پاکستان سکندر مرزا کے وزیر اعظم فیروز خان نون کی کابینہ میں وزیر تجارت تھے۔ ایوب خان کے دورمیں وزیر دفاع پھر 1958ء تا 1960ء صدر ایوب خان کی کابینہ میں بھی وزیر تجارت رہے، 1960ء تا 1962ء وزیر اقلیتی امور، قومی تعمیر نو اور اطلاعات، 1962ء تا 1965ء وزیر صنعت و قدرتی وسائل اور امور کشمیر جون 1963ء تا جون 1966ء وزیر خارجہ رہے۔ وہ دسمبر1971ء تا 13 اگست 1973 صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔ 14 اگست 1973ء کو نئے آئین کے تحت وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔

یہ وہ حقیقت تھی یہ وہ حالات تھے کہ جن کی بنیاد پرذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی عوام کے دلوں کے قریب تھے،ذوالفقار علی بھٹوپاکستانیوں کےمعاشی ،معاشرتی اورسیاسی معاملات کوقریب سے دیکھ چکے تھے اوربہترجانتے تھےجبکہ اس دوران دوسری جماعتیں خاص کر مسلم لیگ کی اس وقت کی قیادت خواب غفلت میں سورہی تھی توذوالفقار علی بھٹو نے عوام کے مسائل کے حل کے لیے اس پارٹی کی بنیاد رکھی ،

سابق وزیراعظم نے تھوڑے ہی عرصے میں عوام کے دلوں میں جگہ بنالی اورشہادتوں، قربانیوں اورمشکلات کے باوجود یہ پارٹی اپنے بانی کے خدمت کےجزبوں پرکھڑی ہے ،اس جماعت اور اس جماعت کے بانیوں پارٹی رہنماوں پرجومظالم ڈھائے گئے اس کی مثال نہیں ملتی لیکن آج بھی یہ جماعت آزادکشمیر،گلگت بلتستان سمیت پورے ملک میں موجود ہے
میں جو یہ گزارشات کرنا چاہتا ہوں آج اس کا مرکزی خیال،موضوع اورحقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کوختم کرنے کےلیے بھٹوخاندان کوختم کردیا گیا ،باپ بیٹی نے ملک پاکستان سے محبت میں شہادتیں قبول کرلیں لیکن عوام سے منہ نہ موڑا،اب اس خاندان کی کمان سابق صدرآصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے ،میں نہیں ہرکوئی ،آصف علی زرداری کے دوست دشمن،سب ان کی قابلیت،ان کی حکمت ودانائی اورپاکستان کی سیاست میں ان کو مرد حُر مانتی ہے ، اور اس میں شک بھی نہیں ہے ،آصف علی زرداری ٹھندی طبیعت کے حامل سمجھےجاتے ہیں ،آصف علی زرداری حائل مشکلات کے باوجود کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں ،لیکن سوال یہ ہے کہ وہ آصف علی زرداری اپنی زندگی میں اس پارٹی کی جڑیں پھیلانے اورمضبوط کرنے میں کیوں سُست ہیں،وہ کیوں یہ نہیں سمجھ رہے کہ آج بھی ذوالفقارعلی بھٹوکی خدمت انسانیت کو ان کے مخالفین بھی سراہتے ہیں، وہ کیوں نہیں یہ سمجھتے کہ اپنی زندگی میں بلاول بھٹو کو سندھ کے علاوہ باقی صوبوں کی عوام کے دلوں کی دھڑکن بناتے،

محترم جناب آصف علی زرداری صاحب ،پاکستان پیپلزپارٹی آج بھی پنجاب کے دیہاتوں میں موجود ہے ، کے پی ، بلوچستان اورکشمیر،گلگت بلتستان میں موجود ہے ،لوگ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کو یاد کرتے ہیں،آج بھی لوگ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک قومی لیڈرمانتے ہیں ، لوگ انہیں آئین پاکستان کا بانی مانتے ہیں ،بلکہ ایک بہت بڑے عالم کے مطابق انسان خطاوں کا پُتلا ہے ، ذوالفقار علی بھٹو سے انسان ہونے کے ناطے بڑی بشری غلطیاں ہوں گی لیکن جو ذوالفقار علی بھٹو قادیانیوں کوغیرمسلم قراردے گئے ہیں اللہ کی رحمت کی بڑی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ختم نبوت سے ذوالفقارعلی بھٹو کی محبت کے بدلے میں معاف کردیں گے اور جسے معافی مل گئی وہ کامیاب ہوگیا وہ جنتوں میں پہچ گیا ، آصف علی زرداری کو اللہ تعالیٰ صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائیں ، اپنی زندگی میں اس پارٹی کی کیوں آبیاری نہیں کررہے ، بہت سے مواقع ہیں ، بہت سے انداز ہیں اس وقت پاکستانی پھر سے ذوالفقار علی بھٹو والی سیاست چاہتے ہیں ،اپنی زندگی میں ہی بلاول بھٹو کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے نکلیں ، عوام میں نکلیں گے تو پنجاب کے لوگ عمران خان اور نوازشریف کو بھول جائیں گے ،
جناب آصف علی زرداری صاحب عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کے بہترین مواقع ہیں لوگوں کومسیحا چاہیے،لیکن اس کے لے شرط اول یہ ہے کہ عوامی رابطے کے لیے پُرانا سیاسی انداز یعنی علاقوں کے پارٹی رہنماوں کوبار بار آزمانے کی بجائے کچھ نسخہ کیمیا استعمال کریں ، وہ نسخہ کیمیا اس کینسر نما سیاست میں استعمال کریں گے تو امن بھی آئے گا ، خوشحالی بھی آئے گی اور پھرسے لوگ پاکستان پیپلزپارٹی کے پرچم تلے آئیں گے آئیں اپنی غلطیوں کا ازالہ کریں اور جدید اور مربوط انداز سے میدان میں اتریں اور اپنی زندگی میں ہی بلاول کے سپرد ایک قومی اور مضبوط پارٹی سپرد کرکے اس کے رابطوں کا سلسلہ پاکستان کے چپے چپے تک پھیلائیں ،جب ہرکام میں مقصود اللہ کی رضا ہوگی تواللہ کی رحمت آئے گی اور جس کو رحمت نصیب ہوگئی وہ دنیا میں بھی کامیاب اور آخرت میں بھی کامیاب ہوجائے

السلام علیکم محترم بھائی حافظ خالد ولید صاحب
مجھےخوشی ہوئی کہ آپ مجھے نہیں بھولے،بلکہ میں نے آپ کوکئی سالوں سے یاد نہ کرکے بڑی غلطی کی جس کی سزا بھگت رہا ہوں ، بھائی صاحب آپ نے فرمایا تھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے یا آپ کیا کرسکتے ہیں اس حوالے سے ایک نقشہ اور خاکہ پیش کریں ،

تومیں اس سلسلے میں کچھ گزارشات پیش کررہا ہوں:

بھائی صاحب گورنمنٹ سیکٹرمیں آرگنائزیشن مینجمنٹ،سیکرٹریٹ ڈیزائنراینڈ کوارڈینیٹرکے ساتھ گزٹڈ پوسٹوں پرکام کیا اورپھریہ سب چھوڑ کرجماعت میں آگیا،بیس سال مینجمنٹ میں کام کیا ، انہیں‌ تجربات کی بنیاد پر کچھ کہنا چاہتا ہوں ،

بھائی صاحب ویسے تو جماعت کے کسی بھی شعبہ کوایک نیاانداز دیا جاسکتا ہے ،لیکن حالات، واقعات اورضروریات کے مطابق اب اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت کے کام کوکس طرح مربوط کیا جائے اورکس طرح ملک کے کونے کونے میں اسے پھیلایا جائے

عالمی حالات اورپابندیوں کےبعد جماعت ایک نئے انداز سے میدان میں آئی ہے،ہم نےمیدان سیاست میں قدم رکھ دیا ہے،سیاست کے میدان میں سب سے بڑی چیز کسی جماعت کا سیاسی نظریہ،منشوراوراس کی خدمات ہوتی ہیں ،اس کے بعد ان مذکورہ چیزوں کی حجت قائم کرنی ہوتی ہےجس کےلیےموجودہ دورمیں عوام تک رسائی کےلیےمیڈیا کا بھرپوراستعمال ہوتا ہے،میڈیا کےاس استعمال میں پرنٹ،الیکٹرانک اورسوشل میڈیا مرکزی مقام رکھتے ہیں

پاکستان سمیت دنیا بھرمیں حکومتیں،ادارے،سیاسی جماعتیں،شخصیات ذرائع ابلاغ کےانہیں ذرائع کےاستعمال سے ہی اپنا سسٹم چلا رہی ہیں،جو ان ذرائع کا بہتراستعمال کرتا ہےوہ کامیاب رہتا ہےاوربھرپورفائدہ اٹھاتاہے

اب آتے ہیں جماعت کے مشن اورمنشور کی طرف ،عالمی اورملکی حالات کے تناظرمیں جماعت نے بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے،پہلے کھل کردعوت وجہاد کا کام کرتے تھے اب حکمت ودانائی کے ساتھ کرنا ہے،

ویسے تومختلف انداز سے یہ کام جاری ہے لیکن اب ہم نے سیاست کومرکزی پلیٹ فارم کے طور پراستعمال کرنا ہے ،اللہ نے جوذرائع اور وسائل ہماری جماعت کو دیئے دنیا میں کسی جماعت کے پاس یہ ذرائع نہیں ،پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے پاس اتنے ورکرزنہیں جتنے ہمارے پاس جانثار موجود ہیں ، ان سیاسی جماعتوں کے پاس سوائےچند مرکزی دفاتر کے علاوہ کچھ نہیں الحمد للہ ہمارے پاس ملک کےچپےچپے میں مراکز،مساجد اوردفاتر موجود ہیں،سیاسی جماعتوں کے پاس شخصیت پرستی کےسوا کچھ نہیں بس وہ چند لیڈروں کےنام پرسیاست کرتے ہیں،الحمد للہ ہمارے پاس خدمت انسانیت،تعلیم وتربیت،ملک وقوم کی ہرزاویےسےخدمت کے ساتھ ساتھ کئی ذرائع ہیں ،ہم پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے پشتی بان ہیں

بھائی صاحب آپ جماعت ہیں ،آپ جماعت کا اثاثہ ہیں ، آپ جماعت کے ذمہ دارہیں ،اس لیے کچھ حقائق اس لیے واضح کررہا ہوں کہ آپ صورت حال کوبآسانی سمجھ سکیں تاکہ جماعت کے مشن میں اور ترقی کے سفرمیں حائل رکاوٹوں کو دورکرکے کامیابیوں کےساتھ بڑھتے رہیں‌

بھائی صاحب دیگرتمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے پاس اتنی زیادہ افرادی قوت نہیں جتنی ہمارے پاس ہے ، اتنے وسائل نہیں جتنے ہمارے پاس ہیں ، اتنی قربانیاں نہیں جتنی ہمارے پاس ہیں لیکن ہم پھر بھی ان سے پیچھے ہیں ، اس کی کیا وجہ ہےیا ہمیں کیا کرسکتے ہیں کہ ان تمام جماعتوں کو پیچھے چھوڑ جائیں

بھائی صاحب ہمارے پاس سب کچھ ہے لیکن ہم ان ذرائع کودرست استعمال نہیں کرپارہے
ہمارے پاس ہرگلی محلے میں سوشل میڈیا ٹیمیں یا نیٹ ورک ہے لیکن ان سے فائدہ نہیں اٹھا رہے
ہمارے پاس ہرگلی محلی میں ورکرز ہیں ہم ان کا بہتراستعمال نہیں کررہے
ہمارے پاس پاکستان کے چپے چپے میں مراکز،مساجد اور دفاتر ہیں ہم ان کوبہترانداز سے استعمال نہیں کررہے
ہمارے پاس پڑھے لکھے لوگ ہیں ہم ان سے فائدہ نہیں اٹھا رہے
ہمارے پاس خدمت خلق،خدمت انسانیت اورملک وملت کی شاندارداستانیں ہیں مگرہم ان کواستعمال میں نہیں لارہے
ہمارے پاس معاشرے کی فلاح وبہبوراوراصلاح کے لیےعلما اوراساتذہ موجود ہیں مگرہم ان سےفائدہ نہیں اٹھا رہے

بھائی صاحب میں بھی جانتا ہوں آپ بھی جانتے ہیں جماعت کی مرکزی سوشل میڈیا ٹیم جس کو بہت سےوسائل دستیاب ہیں اورایسے ہی علاقائی سوشل میڈیا ٹیمیں‌ جن کوجماعت وظائف دیتی ہے وہ سب ڈنگ ٹپاوکے مشن پرلگے ہوئے ہیں وہ جو کام کررہے ہیں اس کی اتنی ضرورت یا اہمیت نہیں جووقت اور حالات کے مطابق ہونی چاہیے تھی

بھائی صاحب اگرآپ مجھے یہ ذمہ داری سونپ دیں کہ میں ایک ایسا میڈیا نیٹ ورک ڈیزائن کروں جس کے ذریعے
سیاسی،معاشی، اقتصادی ،معاشرتی ،دینی اورجہادی مفادات ایک ہی پلیٹ فارم سےحاصل کرکےجماعت کوبہترسے بہتراندازسے فعال کرسکوں اور پاکستان کی صف اول کی جماعت کےطورپرسامنے لاسکوں، اس پلیٹ فارم کے ذریعے ملکی سیاست کے دھارے بدلے جاسکتے ہیں،اس پلیٹ فارم کے ذریعےعالمی میڈیا اورپاکستان اوراسلام کے خلاف سازشوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے

الحمدللہ میں یہ سب کچھ کرسکتا ہوں‌
ایک نیٹ ورک،پلیٹ فارم اور نیوزایجنسی یا میڈیا سسٹم ڈیزائن کروں‌ گا
پاکستان بھرکےچپےچپےمیں کارکن موجود ہیں،ان کو اس نیٹ ورک سےمنسلک کیا جائےگا
تازہ اور بریکنگ نیوز،حقیقت پر مبنی حقائق اورملکی صورت حال سے واقفیت
پاکستانی میڈیا کو تو چند مہینوں مین بیک فُٹ پرکردکھاوں گا ، عالمی میڈیا بی بی سی ، سی این این جیسے اداروں کو بھی مات کرتے دکھاوں گا
پھراس نیٹ ورک کےذریعے جو قیادت ڈیزائن اورہدف دے گی وہ اللہ کے فضل وکرم سے پورا کرکے دکھاوں گا
پاکستان بھر کے بااثر،سیاسی،معاشرتی اورسماجی شخصیات سے بہترنیٹ ورکنگ اور قیادت سے بہترورکنگ ریلیشن شپ ترتیب دوں گا اور پھر اس کے ساتھ ساتھ وقت اورحالات کے تقاضوں‌ کے مطابق ادارے کا استعمال کیا جائے گا
جب بی بی سی اورعالمی ادارے آپ کے ڈیزائن کردہ ادارے پرانحصار کریں گے توآپ پاکستان میں بھرپوراور فعال کردار ادا کرسکیں گے

Leave a reply