ہندو انتہا پسندوں کا اذان پر بھی اعتراض،کہا اذان ہو گی تو لاؤڈ سپیکر پر میوزک بجائیں گے

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں کبھی اذان، کبھی نماز اور کبھی حجاب کو لے کر مسلمانوں کا جینا محال کر دیا گیا ہے

اب خبر آئی ہے کہ بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش میں ہندو انتہا پسندوں نے اذان پر اعتراض عائد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ جب اذان ہو گی تو ہم لاؤڈ سپیکر پر میوزک بجائیں گے،ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ایک ویڈیو بنائی گئی ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے، اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہندو انتہا پسند جمع ہیں اور ان میں سے ایک لڑکا کہہ رہا ہے کہ اس نے مسجد کے بالمقابل عمارت پر لاؤڈ اسپیکر لگا رکھے ہیں جب بھی اذان ہوگی ہم لاؤڈ اسپیکر پر اونچی آواز میں گانے بجائیں گے، ہندو انتہا پسند کا کہنا تھا کہ اس ویڈیو کو پورے بھارت میں وائرل کیا جائے

دوسری جانب پولیس نے انتہا پسند ہندووں کی جانب سے نصب لاؤڈ اسپیکر کو اتار دیا لیکن کسی انتہا پسند کو گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ مسجد انتظامیہ کو فی الحال اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے روک دیا گیا ہے

واضح رہے کہ بھارت میں اذان پر اعتراض کا یہ پہلا کیس نہیں بلکہ اس سے قبل بھی مسلمانوں کو کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہے اور اذان پر پابندی مقامی طور پر عائد کی جا چکی ہے، بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں ہندو انتہاپسند سوچ کے حامل وکلا نے صوتی آلودگی کو بہانہ بناتے ہوئے لاؤڈ اسپیکروں سے اذانوں کی آوازوں پرپابندی کا مطالبہ کیا اس کیلئے وکلاء نے اندور کے ڈویژن کمشنر اور وزیر داخلہ نروتم مشرا کو میمورنڈم بھی ارسال کردیا ہے وکلاء کی جانب سے اٹھائے گئے اس اقدام کو مسلم تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے مسلم مذہبی رہنماؤں نے اسے مذہبی تعصب سے تعبیرکیا ہے مدھیہ پردیش کی جمعیت علماء نے بیان دیا جس میں کہا گیا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سبھی مذاہب کے لوگ اپنی تقریبات میں استعمال کرتے ہیں۔

بھارت میں حکمران جماعت بی جے پی کی طرف سے مسلمانوں پرہونے والے مظالم اس قدرزیادہ ہیں کہ ہندووں کی ہی جماعتیں اس پرخوف زدہ اورپریشان ہیں ،قبل ازیں اتر پردیش کے غازی پور کے ضلع مجسٹریٹ نے زبانی احکامات جاری کرتے ہوئے مسجدوں میں اذان دینے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے خلاف بی ایس پی کے رکن پارلیمنٹ افضال انصاری نے الہ آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ جس پر سماعت کے بعد عدالت نے مسلمانوں کو لاؤڈ سپیکر پر اذان اور بغیر لاؤڈ سپیکر کے بھی اذان دینے کی اجازت دے دی تھی

شادی سے انکار، لڑکی نے کی خودکشی تو لڑکے نے بھی کیا ایسا کام کہ سب ہوئے پریشان

شوہرکے موبائل میں بیوی نے دیکھی لڑکی کی تصویر،پھر اٹھایا کونسا قدم؟

خاتون پولیس اہلکار کے کپڑے بدلنے کی خفیہ ویڈیو بنانے پر 3 کیمرہ مینوں کے خلاف کاروائی

غیر ملکی خاتون کے سامنے 21 سالہ نوجوان نے پینٹ اتاری اور……خاتون نے کیا قدم اٹھایا؟

اپوزیشن جماعت کے سینئر رہنما،سابق پارٹی ترجمان کی ہوئی کرونا سے موت

کرونا وائرس، اگست تک بھارت میں ہو سکتے ہیں 3 کروڑ مریض،مودی سرکار نے سر پکڑ لیا

کرونا کا خوف، بھارت میں فوج کے بعد پولیس والوں کو بھی چھٹی دے دی گئی

کرونا لاک ڈاؤن میں بھی جرائم کم نہ ہو سکے،15 روز میں 100 افراد قتل

کرونا وائرس سے لڑنے کی بھارتی صلاحیت جان کر مودی بھی شرمسار ہو جائے

دہلی میں سی آر پی ایف میں کرونا پھیلنے لگا، ایک ہلاک، 47 مریض

لاک ڈاؤن کی اہمیت بتانے جانیوالی پولیس پر عوام کا حملہ،سات اہلکار زخمی

لاؤڈ سپیکر پر اذان دینا جرم کر گیا، ہندو انتہا پسندوں نے مسجد میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور مؤذن کو ذخمی کر دیا ,واقعہ بھارت کے علاقے گورکھپور مین پیش آیا جہاں ایک مسجد میں مؤذن نے لاؤڈ سپیکر پر اذان دی تو ہندو انتہا پسند مسجد میں گھس گئے اور انہوں نے مؤذن پر حملہ کر دیا جس سے وہ زخمی ہو گیا، شرپسندوں نے مسجد میں توڑ پھوڑ بھی کی، ہندو انتہا پسندوں کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران مسجد میں اذان نہ دی جائے لیکن مؤذن نے اذان دی اور اس پر حملہ کر دیا گیا

مؤذن کے پاس اذان دینے کا حکومتی اجازت نامہ بھی تھا اسکے باوجود ہندو انتہا پسندوں نے اس پر حملہ کیا ،35 سالہ مؤذن عبدالرحمان اس حملے میں شدید زخمی ہوا جس کو علاج کے لئے ہسپتال منتقل کر دیا، انتہا پسندوں نے مسجد کی بے حرمتی کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کی.اطلاع ملنے پر پولیس موقع پر پہنچی اور مقامی مسلمان بھی مسجد میں پہنچ گئے ،اس دوران ہندو انتہا پسندوں نے مقامی افراد پر بھی تشدد کیا ،پولیس کے آنے سے قبل ہندو انتہا پسند مسجد سے فرار ہو گئے تھے واقعہ کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کرنے کی بجائے مسلمانوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ انتہا پسندوں کے ساتھ صلح کر لیں

بھارت کی ریاست کرناٹک میں حجاب کے حوالہ سے بحث جاری ہے، رکن پارلیمنٹ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا کہنا ہے کہ بھارت میں حجاب پہننے کی ضرورت نہیں ہے، مدرسوں کے علاوہ اگر کسی دیگر تعلیمی ادارے میں حجاب پہنا جاتا ہے تو اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ آپ کے پاس مدرسے ہیں، اگر آپ وہاں حجاب پہنتے ہیں یا خضاب لگاتے ہیں تو ہمیں کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ آپ وہاں کا ضروری لباس پہنتے ہیں اور وہاں کے نظم و نسق پر عمل پیرا ہوتے ہیں لیکن اگر آپ ملک کے اسکولوں اور کالجوں میں نظم و نسق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور حجاب پہننا اور خضاب لگانا شروع کر دیتے ہیں تو اسے برداشت نہیں کیا جائے گا خضاب کا استعمال بالوں کی سفیدی کو چھپانے کے لئے کیا جاتا ہے لیکن حجاب کا استعمال چہرہ ٹھانپنے کے لئے کیا جاتا ہے

Shares: