برِ صغیر کی معروف علمی، ادبی اور سماجی شخصیت،عطیہ فیضی

0
105

برِ صغیر کی معروف علمی، ادبی اور سماجی شخصیت

عطیہ فیضی (ولادت: 1 اگست 1877ء، وفات: 4 جنوری 1967)

عطیہ فیضی کون تھی؟

یہ تین بہنیں تھیں۔ سب سے بڑی نازی بیگم، ان سے چھوٹی زہرا بیگم اور آخری عطیہ بیگم۔ صرف عطیہ نے اپنا نام اپنے خاندانی لقب فیضی کی نسبت سے عطیہ فیضی رکھا۔ ان کے والد علی حسن آفندی کا تعلق ایک عرب نژاد خاندان سے تھا جو اپنے ایک بزرگ فیض حیدر کے نام کی نسبت سے فیضی کہلاتا تھا۔ یہ لوگ تجارت پیشہ تھے اور تجارتی کاموں کے سلسلے میں بمبئی سے لے کر کاٹھیاواڑ تک پھیل گئے تھے۔ عرب، ترکی اور عراق کے عمائد اور عوام سے بھی تعلقات تھے۔ اس خاندان میں علم وادب کا چرچا تھا۔ عطیہ کبھی کبھی دعویٰ کیا کرتی تھیں کہ ان کا خاندان ترکی النسل ہے لیکن عام طور پر انھیں عرب نژاد ہی خیال کیا جاتا تھا۔

نازی بیگم: علی حسن آفندی کی سب سے بڑی بیٹی عطیہ فیضی سے نو سال بڑی تھیں۔ یہ بھی استنبول میں ۱۸۷۲ء کو پیدا ہوئیں۔ نازی بیگم نے ترکی کے اعلیٰ تعلیمی اداروںمیں تعلیم حاصل کی۔ ان کو ترکی، انگریزی، عربی اور فارسی میں اچھی دستگاہ حاصل تھی۔ بعد میں انھوں نے گجراتی اور اُردو زبان میں بھی مہارت پیدا کر لی۔ ابھی ۱۳ برس کی تھیں کہ ان کی شادی بمبئی کے قریب واقع ایک چھوٹی سی ریاست جنجیرہ کے نواب سرسیدی احمد خاں سے کر دی گئی۔

سرسیدی احمد خاں کے اجداد حبشہ (ایتھیوپیا) کے ساحل پر آباد تھے۔ وہاں سے نقل مکانی کر کے یہ بمبئی آئے اور جنجیرہ کے جزیرے میں آباد ہو گئے۔ بعد میں وہ اس جزیرے کے حکمران بن گئے۔ یہ تحقیق نہیں ہو سکی کہ یہ خاندان جنجیرہ میں کب آباد ہوا اور کب وہاں ان کی حکمرانی قائم ہوئی۔ سسرال میں نازی بیگم کو رفیعہ سلطان کا لقب دیا گیا اور وہ ہر ہائی نس نازی رفیعہ سلطان آف جنجیرہ کہلائیں۔

اپنے حسنِ عمل کی بدولت یہ جزیرے میں کافی ہر دل عزیز تھیں۔ ان کو علم و ادب سے گہرا لگائو تھا اور وہ اربابِ علم کی بے حد قدر دان تھیں۔ مولانا شبلی نعمانی کی شہرہ آفاق تصنیف سیرت النبیﷺ کی تیاری میں ان کی تحریک اور اعانت بھی شامل تھی۔ مولانا نے اس کا کافی حصہ جنجیرہ کی پر سکون فضا میں رہ کر مکمل کیا۔

سفرِ یورپ کے دوران نازی بیگم کو علامہ اقبال اور کئی دوسرے مشاہیر سے بھی ملاقات کا موقع ملا۔ علامہ اقبال ان کی علمی وجاہت سے بہت متاثر ہوئے اور یہ شعر ان کی نذر کیے:
اے کہ تیرے آستانے پر جبیں گستر قمر
اور فیضِ آستاں بوسی سے گل برسر قمر
روشنی لے کر تیری موجِ غبارِ راہ سے
دیتا ہے ایلائے شب کو نور کی چادر قمر

نازی بیگم نے شبلی نعمانی کی میزبانی کے علاوہ کئی بار علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، قائد اعظم محمد علی جناح، مسز سروجنی نائیڈو اور ملک کے متعدد دوسرے نامور اربابِ علم اور اہل سیاست کی میزبانی کا شرف بھی حاصل کیا۔ بقول نازی بیگم قائد اعظم ان سے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے جنجیرہ آ کر بہت آرام اور سکون ملتا ہے۔ وہ جنجیرہ میں اپنا بیشتر وقت محل سے ملحق باغ میں گزارا کرتے تھے۔

عطیہ فیضی نے بھی اپنی بہنوں کی طرح استنبول میں اعلیٰ تعلیم پائی اور ترکی، عربی، فارسی، انگریزی، اُردو اور گجراتی میں اچھی استعداد بہم پہنچائی۔ ان کی بڑی بہن نازی بیگم کی شادی ۱۸۸۵ء میں نواب جنجیرہ (بمبئی) سے ہوئی تو یہ بھی ان کے ساتھ جنجیرہ میں رہنے لگیں۔ عطیہ اپنے والدین کی بہت لاڈلی تھیں اور سب بہنوں میں زیادہ شوخ وچنچل بھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ بڑی ذہین و فطین اور علم و ادب کی شیدائی بھی تھیں۔ جنجیرہ ایک پُر فضا جزیرہ تھا۔

نازی بیگم کی دعوت پر ملک کے بڑے بڑے اہلِ سیاست اور اربابِ علم کی یہاں آمد آمد ہوئی ان میں مولاناشبلی نعمانی بھی شامل تھے۔ ان کو عطیہ کی ذہانت، علم وادب سے شغف اور دوسرے اوصاف نے بے حد متاثرکیا اور وہ ان کے مداح بن گئے۔ عطیہ بھی شبلی نعمانی کی بہت قدر دان تھیں۔ ان کے درمیان خط وکتابت بھی ہوتی رہتی تھی۔ جس میں بے تکلفی کا ایک مخصوص رنگ پایا جاتا تھا۔ بالخصوص مولانا شبلی کے خطوں میں، بعض اصحاب نے اس بے تکلفی کو کوئی اور رنگ دینے کی کوشش کی ہے لیکن یہ بے تکلفی ہمیشہ ایک حد کے اندر رہی اور عطیہ ہمیشہ انھیں (شبلی کو) عزت کا ایک مقام دیتی رہیں۔

۱۹۰۳ء میں عطیہ کی شادی ایک عالمی شہرت یافتہ مصور رحیمن (رحمین) سے ہوئی۔ وہ یہودی نژاد تھے لیکن مسلمان ہو گئے تھے۔ یہ ڈاکٹر فیضی رحیمن کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی بنائی ہوئی تصویریں دنیا کے مختلف عجائب گھروں اور آرٹ گیلریوں کی زینت رہیں۔ ہندوستان میں پیدا ہوئے لیکن تعلیم و تربیت یورپ میں ہوئی۔ وہیں مصوری، افسانہ نگاری اور مضمون نویسی میں شہرت حاصل کی۔ وہاں سے اچانک ہندوستان آ گئے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔

قیام پاکستان کے بعد نازی بیگم اور عطیہ فیضی کے ساتھ یہ پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل اقامت اختیار کی۔ کراچی میں ان کی زندگی کے آخری چند سال بڑی پریشانیوں میں گزرے اس کی کچھ تفصیل آگے آئے گی۔ بعض لوگوں نے اس شادی پر اعتراض کیا، شبلی نعمانی کو خبر ہوئی تو انھوںنے یہ شعر کہے:

عطیہ کی شادی پہ کسی نے نکتہ چینی کی
کہا میں نے جاہل ہے یا احمق ہے یا ناداں ہے
بتانِ ہند کافر کر لیا کرتے تھے مسلم کو
عطیہ کی بدولت آج اک کافر مسلماں ہے

مولانا شبلی نے ایک مرتبہ قیامِ جنجیرہ کے دوران عطیہ کو مخاطب کر کے یہ اشعار کہے:

کسی کو یاں خدا کی جستجو ہو گی تو کیوں ہو گی
خیالِ روزہ و فکرِ وضو ہو گی تو کیوں ہو گی
ہوائے روح پرور بھی یہاں کی نشہ آور ہے
یہاں فکرِ مے وجام و سبو ہو گی تو کیوں ہو گی
کہاں یہ لطف، یہ سبزہ یہ منظر یہ بہارستان
عطیہ تم کو یادِ لکھنو ہو گی تو کیوں ہو گی

اور جب ان کو لکھنو میں جنجیرہ کی یاد ستاتی تو کہتے:

یاد میں صحبت ہائے رنگیں جو جزیرے میں ہیں
وہ جزیرے کی زمین تھی یا کوئی مے خانہ تھا

۷،۱۹۰۶ء میں نازی بیگم اپنے شوہر اور دوسرے اہل خاندان کے ساتھ یورپ گئیں تو عطیہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔ انگلستان میںان کی علامہ اقبال سے خوب ملاقاتیں رہیں اور ابنِ عربی کے فلسفۂ تصوف پر طویل مباحث ہوتے (علامہ اس وقت بسلسلۂ تعلیم انگلستان میںتھے) علامہ اقبال عطیہ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کو راز دار بنا لیا۔ اپنے ذاتی حالات اور ذہنی کیفیات تک سے ان کو آگاہ کرتے تھے اور اپنا کلام بھی انھیں بھیجتے تھے۔ اقبال کے خطوط عطیہ بیگم کے نام طبع ہو چکے ہیں۔

ان کو دیکھ کر دونوں کے باہمی روابط کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ عطیہ فیضی بڑی خوبیوں کی مالک تھیں لیکن فی الحقیقت ان کو ملک گیر شہرت مولانا شبلی کی شاعری اور علامہ اقبال کے قلم نے عطا کی اور وہ برصغیر کی نامور خواتین میں شمار ہوئیں۔ ماہر القادری نے عطیہ سے بعض ذاتی ملاقاتوں اور ان مجالس کا کچھ احوال بھی لکھا ہے جو عطیہ کے خصوصی ذوق اور خود ان کے رونقِ محفل ہونے کی وجہ سے منعقد ہوئیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے آخری ایام کی دھندلی سی ایک تصویر ہمیں دکھاتے ہیںجس سے پتا چلتا ہے کہ دھوپ چھائوں کا کھیل بھی کیا کھیل ہے۔ لکھتے ہیں:

’’یہ قصہ نشاطیہ تو ہے ہی مگر کسی حد تک المیہ (ٹریجڈی) بھی ہے۔ شبلی نعمانی کے تذکرے میں عطیہ فیضی کا نام آتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی سے مجھے بے انتہا محبت بھی ہے اور عقیدت بھی۔ اسی نسبت اور تعلق کے سبب عطیہ فیضی کے نام سے میں بہت دنوں سے واقف تھا۔ فنون لطیفہ سے عطیہ کو جو خاص شغف تھا اس کے تذکرے بھی لوگوں کی زبانی سنے تھے۔

ماہرالقادری

Leave a reply