فوری تسکین — ریاض علی خٹک

دیہات کے وہ لوگ جنہوں نے مویشی پالے ہوں جانتے ہیں کہ کسی کٹے کی گردن میں پڑی رسی پکڑ کر اسے سنبھالنا کتنا مشکل ہے بنسبت ایک بھینس کے. بھینس کی رسی پکڑ لیں وہ آپ کے پیچھے آرام سے چل دے گی. لیکن کٹا آپ کو کھینچنے لگے گا. کیونکہ ابھی کٹے نے رسی سے سمجھوتہ نہیں کیا ہوتا.

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کے ہاتھ سے آپکا قیمتی موبائل پھسل جاتا ہے لیکن گرنے سے پہلے آخری لمحے میں آپ کیچ کر لیتے ہیں. آپ سوچیں ہاتھ سے نکلنے کا دکھ زیادہ ہے یا کیچ کرنے کی خوشی.؟ آپکا دماغ فوراً بتائے گا کیچ کرنے کی خوشی زیادہ ہے. کیا اس خوشی کیلئے اب موبائل کو آپ کرکٹ کی بال بنا لیں گے.؟

ہمارے بازار انسانی نفسیات سے کھیلتے ہیں. جیسے سود اور قرض قسطوں پر چیزیں بیچنے والے ہوں. یہ اپنا اشتہار ان الفاظ سے شروع کریں گے” ابھی پائیں” اور پھر آسان اقساط میں واپسی کریں وغیرہ. اس وقت ہمارے نفس کی مثال اس کٹے کی طرح ہو جاتی ہے جو رسی کمزور دیکھ کر سمجھتا ہے میں اس رسی پکڑنے والے کو کھینچ لوں گا.

فوری تسکین یا instant gratification ہماری نفسیات کا حصہ ہے. ہمارا دماغ جب کچھ کیچ کرلے تو وہ یہ سوچنا نہیں چاہتا کہ گرا بھی تو مجھ سے تھا. آخر میں اتنا غائب دماغ کیوں ہوا.؟ لیکن کیچ اسے اپنا کارنامہ لگتا ہے. ان قرضوں کے جال میں وہی لوگ پھنستے ہیں جو فوراً کوئی کارنامہ کرنا چاہتے ہوں. لوگ ان کی واہ واہ کریں. بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی.

لیکن کچھ عرصہ بعد وہ قرض ان کی گردن کی وہ رسی بن جاتی ہے جس سے وہ سمجھوتہ کر چکے ہوتے ہیں. پھر سود خور ان کا دودھ بیچ رہے ہوتے ہیں. اور یہ اسے اپنا نصیب سمجھ لیتے ہیں.

Comments are closed.