کیا کوئی رہ گیا ہے جسے نیب قانون سے استثنیٰ نہ ملا ہو؟ جسٹس اعجازالاحسن

0
41
نیب کا رویہ غیرذمہ دارانہ،سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، سپریم کورٹ

نیب قانون میں ترامیم کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی

چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی ،پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے ،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا کوئی رہ گیا ہے جسے نیب قانون سے استثنیٰ نہ ملا ہو،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مالی فائدہ ثابت کیے بغیر کسی فیصلے جو غلط نہیں کہا جا سکتا، بظاہر افسران کو عوامی عہدیداران کو فیصلہ سازی کی آزادی دی گئی ،وکیل نے کہا کہ ایسے فیصلہ سازوں سے ہی ماضی میں 8 ارب روپے سے زائد ریکوری ہوئی،

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ریکوری عوامی عہدیداران سے ہوئی تھی؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عوامی عہدیداروں کیلئے پیسے پکڑنے والوں سے ریکوری ہوئی تھی، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہر سرکاری فیصلے کا کسی نہ کسی طبقے کو فائدہ ہوتا ہی ہے، وکیل نے کہا کہ جب تک پہنچایا گیا فائدہ غیر قانونی نہ ہو تو کوئی قباحت نہیں مخصوص افسر کو غیر قانونی فائدہ پہنچانے پر کارروائی نہ ہونا غلط ہے،وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کسی ریگولیٹری اتھارٹی اور سرکاری کمپنی پر نیب ہاتھ نہیں ڈال سکتا،

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نئی ترامیم کے بعد نیب قانون سے بچ نکلنے پر دوسرے میں پھنس جائے گا، آپ کے دلائل سے ایسا لگتا ہے احتساب صرف نیب کر سکتا ہے، احتساب کیلئے دیگر ادارے بھی موجود ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم کسی دوسرے قانون میں نہیں، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم میں نجی افراد کو جرائم سے نکال دیا گیا ہے،آمدن سے زاہد اثاثہ جات پر اس وقت کارروائی ہوگی جب کرپشن ثابت ہو، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے کہ ترامیم سے کئی جرائم کو ڈی کریمینلائز کردیا گیا ہے؟ ریمانڈ کتنا ہو ضمانت کیسے ہوگی ان ترامیم پر آپکا اعتراض نہیں، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ اچھی ترامیم ہیں ان پر اعتراض نہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات سمیت نیب قانون سے جرائم نکالے گئے،کیا ان جرائم کیخلاف دوسرے قوانین موجود ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ نیب ترامیم سے کونسے جرائم نکال دئیے گئے ہیں؟ وکیل نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرائم کو ختم کردیا گیا ، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب قانون میں آمدن سے زاہد اثاثہ جات کاجرم آج بھی موجود ہے، کیا عدالت اب قانون کے ڈیزائن کا جائزہ بھی لے گی؟ عدالت پارلیمنٹ کیساتھ چالاکی کو کیسے منسوب کر سکتی ہے؟

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان جیسے ملک میں درست ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرائے جاتے، اثاثوں کا آمدن سے محض زائد ہونا کافی نہیں، آمدن سے زاہد اثاثہ جات میں کرپشن یا بے ایمانی کا ہونا بھی ضروری ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کل کو کوئی عدالت آکر کہیں کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات پر پھانسی ہونی چاہیے،جرم ثابت کرنے کا بوجھ کس پر اور کتنا ہوگا، یہ بحث عدالت نہیں پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے،

تحریک انصاف نے نئی نیب ترامیم کوچیلنج کردیا

نیب ترامیم کیخلاف درخواست،فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کرینگے،چیف جسٹس

 سپریم کورٹ مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گی

اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ پلی بارگین کے بعد بھی ملزم کا اعتراف جرم تصور نہیں ہو گا،چیف جسٹس

واضح رہے کہ عمران خان نے موجودہ حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے ،عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں عمران خان نے استدعا کی تھی کہ سیکشن 14،15، 21، 23 میں ترامیم بھی آئین کے منافی ہیں۔ نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19A, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

Leave a reply