سائنسدانوں نے دنیا کے تنہا ترین درخت سے امیدیں باندھ لیں

0
67

سائنسدانوں نے ماحولیات کے سوال پر دنیا کے تنہا ترین درخت سے امیدیں باندھ لیں-

باغی ٹی وی: نیوزی لینڈ کے سائنسدانوں کو امید ہے کہ کیمپ بیل جزیرے پر موجود دنیا کا تنہا ترین بوڑھا درخت ماحولیاتی تبدیلیوں کے سوال کے راز افشا کرنے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔

اداسی محسوس ہو تو دریا یا نہر پر چلے جانا مزاج کو بہتر کر سکتا ہے،تحقیق

نیوزی لینڈ کے جنوبی سمندر کے ایک جزیرے پر موجود 9 میٹر طویل صنوبر (Sitka Spruce) کا یہ درخت کب لگایا گیا اس حوالے سے کوئی حتمی ثبوت موجود نہیں تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ اسے 1900 کے قریب لگایا گیا تھا۔

مستقل طور پر غیر آباد سبانٹرکٹک کیمبل جزیرے کے وسط میں بیٹھا، نو میٹر لمبا سیٹکا سپروس اپنے قریبی ساتھی سے 250 کلومیٹر دور ہے۔ اصل میں، یہ جزیرے پر واحد درخت ہے تاہم، تکنیکی طور پر، یہ تنہا درخت یہاں نہیں ہونا چاہئے اس کا وجود اب موسمیاتی تبدیلی کی زمینی تحقیق کو آگے بڑھانے میں مدد کر رہا ہے۔

صنوبر کا یہ درخت دنیا کا تنہا ترین درخت تصور کیا جاتا ہے اور گنیز بک آف رکارڈز میں بھی اسکا نام ’’ریموٹیسٹ ٹری آن دی پلینٹ‘‘ کے طور پر درج ہے اور یہ 222 کلومیٹرز کے دائرے میں موجود واحد درخت ہے۔

یہ درخت ویسےبھی سائنسدانوں کیلئےدلچسپی کا باعث بن سکتا ہےلیکن جی این ایس سائنس میں ریڈیو کاربن سائنس کےسربراہ ڈاکٹر جوسلن ٹرنبل کا خیال ہےکہ یہ درخت جنوبی سمندر کے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار جذب کرنے کی مقدار جاننے کیلئے ایک اہم اوزار ثابت ہو سکتا ہے۔

تیزی سے بدلتی ہوئی آب وہوا سے دنیا بھر میں انفیکشن بڑھ رہے ہیں،تحقیق

جی این ایس سائنس نیوزی لینڈ کے ریڈیو کاربن سائنس لیڈر کے طور پر، ڈاکٹر ٹرن بل انٹارکٹک سائنس پلیٹ فارم کے ایک بڑے تحقیقی پروجیکٹ کی رہنمائی کرتے ہیں، جو کہ حکومت کے تعاون سے چلنے والا ایک تحقیقی پروجیکٹ ہے جس کا مقصد زمین کے نظام پر انٹارکٹیکا کے اثرات کی سمجھ کو بہتر بنانا ہے۔

ڈاکٹر ٹرن بل اور ان کی ٹیم ریڈیو کاربن کی پیمائش میں مہارت رکھتی ہے تاکہ جنوبی بحر میں جیواشم ایندھن کے CO2 کے اخراج کے ماخذ کی چھان بین کے لیے کاربن سنک کے طور پر اس کے کردار کو سمجھ سکے۔

ڈاکٹر جوسلن کا کہنا ہے کہ فاسل فیول کے استعمال سے ہم جو کاربان ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتے ہیں اس کا صرف نصف حصہ پیچھے رہ جاتا ہے جبکہ باقی نصف حصہ زمین اور سمندر جذب کر لیتے ہیں۔

ڈاکٹر جوسلن کا کہنا ہے کہ جنوبی سمندر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی مقدار کے حوالے سے ہونے والی تحقیقوں میں متضاد نتائج سامنے آئے تھے لیکن موجودہ نظریہ یہ ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب ہونے کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے اور ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو کس چیز کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

دنیا کا واحد زہریلا پرندہ دریافت

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کیلئے ڈیٹا جمع کرنے کا سب سے بہترین طریقہ CO2 کنسٹریشن والے ماحول سے ہوا کے سیمپل جمع کرنا ہے یا گہرے سمندر سے پانی کے سیمپل لے کر ان کی کاربن ڈیٹنگ کرنا ہے لیکن آپ ایسی ہوا کا سیمپل نہیں لے سکتے جو 30 سال پہلے تھی کیوںکہ اب اس کا کوئی نام و نشان وہاں باقی نہیں ہے-

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس خیال پر کام کرنے کا ارادہ کیا کہ ہم درختوں کی رنگز کا مطالعہ کر سکتے ہیں کیوں کہ درخت نشونما پاکر بڑھتے رہتے ہیں اور ہوا سے جذب کی گئی کاربان ڈائی آکسائیڈ ان کی رنگز میں قید رہ جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں درخت بہت ہی کارگر معلومات کا ذریعہ بن سکتے ہیں لیکن جنوبی سمندر کے پاس درخت بہت ہی نایاب ہیں اور صنوبر کے اس تنہا ترین اور بوڑھے درخت کے حوالے سے ہماری ٹیم کا خیال ہے کہ یہ بہت معلوماتی ڈیٹا مہیا کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صنوبر کے درخت خطے میں موجود کسی بھی دوسری چیز کی نسبت تیزی سےنشونما پاتے ہیں اور ان سے ریکارڈ لینا بھی آسان ہوتا ہے کیونکہ ان کی رنگز بڑی ہوتی ہیں اورانہیں الگ کرنا بھی آسان ہوتا ہے۔

برازیل میں ایمیزون کے جنگلات کی کٹائی کا نیا ریکارڈ

Leave a reply