یوم دفاع اسلام بمقابلہ ہندومت، تاریخ کے آئینے میں تحریر: احسان الحق

0
38

پاکستانی قوم حسب روایت بڑے جوش وجذبے اور حب الوطنی کے ساتھ 6 ستمبر کو یوم دفاع منا رہی ہے. پاکستان کی تاریخ کے چند اہم ترین دنوں میں سے 6 ستمبر 1965 کا ایک دن "یوم دفاع” کا ہے جب قوت ایمانی سے سرشار اور شہادت کی تمنا لئے پاکستان کے جانباز سپاہیوں نے ہمت و شجاعت کی ناقابل فراموش داستانیں رقم کرتے ہوئے اور ناقابل یقین جوانمردی کا مظاہر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دشمن کو تاریخی عبرت ناک شکست دی.

ہندوؤں کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور دشمنی نئی بات نہیں، اس تعصب اور دشمنی کی ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ ہے. تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہندو روز اول سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صف آراء رہے ہیں. قیام پاکستان کے بعد تعصب اور دشمنی میں اضافہ ہوا، بھارت نے ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے پاکستان کو معاشی، ثقافتی، دفاعی اور سیاسی الغرض ہر لحاظ سے کمزور کرنے کی کوشش کی ہے اور کرتا آ رہا ہے. اس کی بہت ساری وجوہات ہیں. قیام پاکستان کے بعد ہندوستان اور ہندوؤں کی پاکستان اور اسلام دشمنی سب پر عیاں ہو چکی ہے. آج ہم اسلام اور ہندو مت کے درمیان چیدہ چیدہ تاریخی معرکوں کے بارے میں جانتے ہیں.

تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان معرکہ خلیفہ ثانی امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں پیش آیا. ہندو معاشرہ رنگ نسل، ذات پات میں بٹا ہوا تھا. امیر اور غریب کے لئے الگ الگ قانون تھا. ہندو معاشرے میں برہمنوں اور دلتوں کے لئے الگ الگ نظام زندگی تھا. سن 14 ہجری میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہہ نے فارس کو فتح کرکے اسلامی ریاست میں شامل کر لیا. اس وقت برصغیر کے متعصب ہندو حکمرانوں کو یہ بات قطعی پسند نہ آئی کہ ہمارے پڑوس میں ایک ایسا نظام رائج ہو جس میں عدل و انصاف ہو، جہاں مالک اور نوکر، آقا و غلام اور امیر غریب کے لئے ایک جیسا انصاف ہو، جہاں کسی امیر کو غریب پر، کسی گورے کو کالے پر کوئی سبقت نہ ہو، جہاں ذات پات کی کوئی قید نہ ہو.

چنانچہ سن 28 ہجری میں ہندوؤں نے اسلامی ریاست پر حملہ کرتے ہوئے ہرات پر قبضہ کر لیا. موجودہ ہرات اس وقت ایران میں شامل تھا. اس وقت خلیفہ ثالث امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مہلب بن صفرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کی قیادت میں لشکر بھیجا. اسلامی لشکر نے برہمنوں کو شرمناک اور ذلت آمیز شکست دیکر ہرات کو واپس اسلامی ریاست میں شامل کر دیا. مگر ہندوؤں کو چین نہ آیا، وہ موقع کی تلاش میں رہتے اور وقتاً فوقتاً حملہ آور ہوتے رہتے تھے. حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کی خَلافت میں مکران فتح ہوا. مکران کی سرحد سندھ سے ملتی تھی جہاں ہندو راجہ داہر کی حکومت تھی.

امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ نے خلافت سنبھالی تو آپ نے ایک عرب سردار کو سندھ کے ساحلی علاقوں کی دیکھ بھال اور نگرانی کے لئے مقرر فرمایا. خلافت راشدہ کے بعد اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کی خلافت میں عراقی گورنر حجاج بن یوسف نے سندھ کی طرف خصوصی توجہ دی. سندھ کا ہندو حکمراں راجہ داہر مسلمانوں کے لئے بہت ظالم اور جابر حکمران تھا. سری لنکا سے جانے والے مسلمان قافلے کو سندھ کے نزدیک سندھ کے بحری قزاقوں نے لوٹ کر مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا جن کو راجہ داہر کی سرپرستی حاصل تھی. حجاج بن یوسف کے خبردار کرنے کے باوجود راجہ داہر مغویوں اور سامان کو بازیاب کرانے میں عدم دلچسپی سے کام لیتا رہا اور عذر پیش کرتا رہا کہ بحری قزاق میرے دائرہ اختیار میں نہیں. حجاج بن یوسف نے نوعمر سپاہ سالار محمد بن قاسم کی سرپرستی میں لشکر بھیج کر راجہ داہر کو شکست فاش دیتے ہوئے سندھ فتح کر لیا.

عہد سبکتگین میں پنجاب کے ہندو حکمراں جے پال غزنی پر حملہ آور ہوا مگر ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا. تاوان کے بدلے سبکتگین نے امن معاہدہ کر لیا، بعد میں جے پال تاوان دینے سے مکر گیا. اگلے سال پشاور کے نزدیک سبکتگین نے جے پال کو شکست دی.

سبکتگین کی وفات کے بعد محمود غزنوی نے پشاور کے نزدیک نہ صرف جے پال کو شکست دی بلکہ گرفتار کر لیا.

جے پال کی موت کے بعد اس کا بیٹا انند پال تخت حکمرانی پر بیٹھا تو اس نے گردونواح کی ریاستوں بالخصوص دہلی، قنوج، کالنجر اور گوالیار کے حکمرانوں سے ملکر محمود غزنوی کے خلاف مشترکہ اور متحدہ حملہ کیا مگر حسب روایت اس بار بھی ہندوؤں کو شکست ہوئی.

1021 میں انند پال کے بعد ترلوجن پال نے بھی محمود غزنوی کے خلاف جنگ کی مگر پنجاب پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا. 1025 میں محمود غزنوی نے ہندوؤں کے متبرک مندر سومنات پر حملہ کرتے ہوئے تمام بتوں کو توڑ ڈالا. بہت سارا مال غنیمت لیکر محمود غزنوی واپس غزنی روانہ ہو گئے.

سن 1186 میں محمود غزنوی کے بعد محمد غوری نے پشاور اور لاہور فتح کر لئے. سن 1191 میں محمد غوری کو شمالی ہندوستان کے پرتھوی راج سے شکست ہوئی. بہت جلد ہی اگلے سال 1192 میں محمد غوری نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوج اکٹھی کرکے ترائن کے مقام پر پرتھوی راج کو شکست دی اور اسی جنگ میں پرتھوی راج مارا گیا. 1194 میں محمد غوری نے قنوج اور بنارس کے ہندو حکمرانوں کو شکست دی.

علاء الدین خلجی نے 1297 میں کاٹھیاواڑ بغیر لڑے فتح کیا. جب ہندو فوج کو علاء الدین کی پیش قدمی کا پتہ چلا تو وہ بھاگ گئی. 1527 میں مغل بادشاہ بابر نے میواڑ کے راجے رانا سنگرام سنگھ کو شکست دی. رانا سانگا یا سنگرام سنگھ کو بابر نے گرفتار کر کے قتل کر دیا. پھر کبھی بھی ہندوؤں کو مسلمانوں کے مقابلے میں آنے کی ہمت نہیں ہوئی.

1542 میں شیر شاہ سوری نے مالوہ فتح کیا اور 1544 میں رائے سیس کے قلعہ پر حملہ کیا. کالنجر کے قلعے کا محاصرہ کرتے ہوئے. اسکو بھی فتح کیا گیا. یہاں شیر شاہ سوری زخمی ہو گئے اور بعد میں 22 مئی 1545 کو خالق حقیقی سے جا ملے. 1576 میں بادشاہ اکبر نے ہلدی گھاٹ کے مقام پر رانا پرتاب کو شکست دی اور رانا پہاڑوں کی طرف بھاگ گیا. 1614 میں شہزاد خرم نے میواڑ پر حملہ کر کے امر سنگھ کو شکست دی. 1676 میں اورنگ زیب کے خلاف ہندوؤں کے ایک سادھوؤں کے فرقے نے بغاوت کر دی جس کو کچل دیا گیا.

(جاری ہے)

@mian_ihsaan

Leave a reply