آرمی چیف وقت پر ریٹائر،مراسلے میں”سازش”نہیں،امریکہ نے اڈے نہیں مانگے،ترجمان پاک فوج بہت کچھ کہہ گئے

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ پریس بریفنگ کا مقصد قومی سلامتی کی صورتحال سےآگاہ کرناتھا، ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں۔ملک میں اب کوئی مارشل لا نہیں آئے گا،نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا ذکر نہیں ہے، امریکا نے پاکستان سے اڈے مانگے ہی نہیں،فوج کے بارے میں غیر مناسب زبان کےاستعمال سےگریز کرناچاہیے انتخابات کب ہونے ہیں آگے کیسے جانا ہے یہ ہمارا کام نہیں ، سیاستدانوں کا کام ہے،

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ دو روز قبل آرمی چیف کی زیر صدارت فارمیشن کمانڈرز کانفرنس ہوئی،پاکستان کی سرحدی صورتحال مستحکم ہے بلوچستان میں دہشت گردوں نے امن وامان کو خرا ب کرنے کی کوشش کی گئی آخری دہشت گرد کے خاتمے تک دہشت گردی کےخلاف جنگ جاری رہے گی، پاکستان کی مسلح افواج کسی بھی قسم کی صورتحال کے لیے مکمل تیارہیں،

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ رواں سال کے پہلے 3 ماہ میں 128دہشت گردوں کو مارا گیا ،رواں سال کے پہلے 3 ماہ میں 270دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا،پاک فوج کے 168 افسران اور جوان اقوام متحدہ کے امن مشن میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں،97افسروں اور جوانوں نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں جام شہادت نوش کیا، عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا منبع ہے،تعمیری تنقید مناسب ہے، بے بنیاد کردار کشی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں، پاک فوج کے خلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،عوام اور سیاسی پارٹیوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں،پاک فوج نے خط کے معاملے پر اپنا موقف قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کیا ہماری خفیہ ایجنسیاں تمام خطرات کے خلاف چوکنا ہیں،افواہوں کی بنیاد پر پاک فوج کی کردار کشی کسی طور قبول نہیں،ریٹائرڈ فوجی افسران کے جھوٹے آڈیو میسج چلائے جارہے ہیں،جو کام دشمن 7 دہائیوں میں نہیں کرسکا وہ اب بھی نہیں ہونے دیں گے،

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں سے گزارش ہے کہ فوج کو سیاسی معاملات سے باہر رکھیِں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں امریکی خط سے متعلق موقف دیا جا چکا ہے نیشنل سیکورٹی اعلامیہ کے الفاظ سب کے سامنے ہیں،اس اعلامیے میں بیرونی سازش کے لفظ ہیں کیا؟ میرا خیال ہے نہیں ہیں، عسکری قیادت مراسلے کے متعلق موقف سیکیورٹی کمیٹی میں دے چکی سرکاری اعلامیہ آ چکا، پاکستان کیخلاف سازش کرنے کی کوشش کی تو سازش کو ناکام کریں گے ادارے کام کر رہے ہیں کمیٹی میں اپنا ان پٹ دے چکے اعلامیہ میں سازش کا لفظ نہیں تھا ،پاکستان کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے، کسی نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو وہ آنکھ نکال دیں گے۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ عمران خان کے سامنے اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشن نہیں رکھی ، ڈیڈ لاک کی صورتحال میں ہم سے رابطہ کیا گیا وہاں تین آپشن ڈسکس ہوئے پی ڈی ایم کے سامنے تیسرا آپشن رکھا گیا انہوں نے رد کردیا،تمام سیاسی قیادت نے ہر دور میں ایٹمی پروگرام کے لیے کردار ادا کیا نیوکلیئر اثاثے کسی ایک سیاسی قیادت سے خاص نہیں، جتنی بھی حکومتیں آئیں سبھی نے پوری دیانت کے ساتھ اس پلان کو آگے بڑھایا،اسی وجہ سے ہمارے جوہری اثاثوں کی حفاظت دنیا بھرمیں معیارمانا جاتا ہے،اسے سیاسی ڈسکشن میں نہیں لانا چاہیے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ قوم کا مطالبہ تھا کہ پاک فوج کا سیاست میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیے،اب اس کوعملی جامعہ پہنایا گیا ،پاک فوج اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کرتی ہے اور کرتی رہے گی،پہلے کہا جاتا تھا کہ فون آتے ہیں، آج کوئی یہ نہیں کہہ رہا،اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ حکومت کوکوئی آپشن نہیں دیا تھا عمران خان کے دورہ روس میں فوج ہر طرح سے آن بورڈ تھی قومی سلامتی کمیٹی کے بیان میں واضح طور پر بیرونی سازش کی نفی کی گئی اس کمیٹی میں تمام سروس بھی چیف موجود تھے ، فوج کے نیوٹرل ہونے نا ہونے کے جواب میں کہا فوج طے کرچکی ہم آئینی رول میں رہیں گے فوج کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت ہے تو دیا جائے ہمیں سیاست میں نا گھسیٹیں،ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے سیاست سے، گزشتہ دو سال میں ہم نے کسی ضمنی و بلدیاتی انتخاب میں مداخلت نہیں کی۔ 9 اپریل کی رات وزیر اعظم ہاوس آرمی چیف کے وزٹ سے متعلق بی بی سی نے واہیات سٹوری کی ہے، جسکا کسی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ،9 اپریل کی رات آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی عمران خان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی ،امریکہ نے پاکستان سے فوجی اڈے نہیں مانگے۔ وہ وزیر اعظم عمران خان نے ایک غیر ملکی صحافی سے انٹرویو میں absoltely not اس سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اگر امریکہ نے اڈے مانگے تو کیا وہ دیں گے؟ اور اس حوالے سے فوج کا بھی یہی موقف ہے۔ اگر اڈے مانگے جاتے تو فوج کا بھی وزیراعظم عمران خان والا ردعمل ہوتا۔آرمی چیف نے توسیع مانگی ہے نہ قبول کرینگے، آرمی چیف 29 نومبر 2022 کو ریٹائر ہورہے ہیں ،

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم کے سامنے مطالبات اسٹیبشلمنٹ کی طرف سے نہیں رکھے گئے بلکہ جب یہ ڈیڈ لاک برقرار تھا تو وزیراعظم آفس سے آرمی چیف کو اپروچ کیا گیا کہ اس میں بیچ بچاؤ کی بات کریں سیاسی جماعتوں کی قیادت آپس میں بات کرنے پر تیار نہیں تھی تو آرمی چیف اور ڈی جی وہاں گئے مختلف رفقاء سے بیٹھ کر تین چیزیں ڈسکس ہوئیں کہ کیا کیا ہوسکتا ہے، ان میں استعفیٰ، تحریک عدم اعتماد کی واپسی اور اسمبلیاں تحلیل کرناشامل تھیں، تیسرے آپشن پر وزیراعظم نے کہا کہ یہ قابل قبول ہے، ہماری طرف سے ان سے بات کریں مگر اپوزیشن جماعتوں نے اس کو رد کر دیا،

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے خلاف متعلقہ ادارے کام کررہے ہیں،فوج کے بارے میں غیر مناسب زبان کےاستعمال سے گریز کرناچاہیے،پاکستان کی بقا صرف اور صرف جمہوریت میں ہے ہمارے دین میں کہا گیا ہے کہ کسی کے جھوٹے ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ سنی سنائی باتوں کو بغیر تصدیق کے آگے پھیلایا جائے، اسی سے ہی پروپیگنڈہ کا توڑ ممکن ہے۔عدلتیں فوج کے ماتحت نہیں، عدالتیں آزاد ہیں،مسلح افواج سیکیورٹی چیلنجز پرہی قابو پا لے تو یہی ہماری کامیابی ہے پارلیمنٹ ،سپریم کورٹ اور مسلح افواج جمہوریت کی محافظ ہیں پاکستان کی بقا صرف اور صرف جمہوریت میں ہے، اسے مضبوط کرنا سب کا فرض ہے، اسکی قوت ادارے ہیں، پاکستان میں کبھی مارشل لا نہیں لگے گا فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں فوج کون ہوتی ہے کسی کو این آر او دینے والی،وہ اپنا کام کررہی ہے، اگر کوئی دھمکی موصول ہوئی تو وہ وزارت داخلہ دیکھتی ہے احتجاجی مراسلے صرف سازش پر جاری نہیں کیے جاتے، یہ سفارتی طریقہ کار ہے،احتجاجی مراسلے صرف سازش پر نہیں اور بھی کئی معاملات میں جاری کیے جاتے ہیں منفی مہم میں صرف فوج نہیں سب زد میں آرہے ہیں آرمی چیف ادارے کےسربراہ ہیں اور یہ ادارہ حکومت کے ماتحت ہے سیاسی تقاریر میں اگر آرمی چیف کا نام لیا گیا تو پوچھنا کس کا کام ہے؟ بطور ادارہ ہماری کوئی زبان نہیں پراپیگنڈا دراڑیں پیدا کرتا ہے ،پراپیگنڈ ے سے اداروں کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے ،پراپیگنڈ ے سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں مربوط اقدامات کرنے پڑیں گے ڈس انفارمیشن سے فوج کو نشانہ بنایا جارہا ہے ،آج وقت ہے کہ ہم اجتماعی اور انفرادی طور پر اداروں کو اور ملک کو مضبوط بنائیں تاکہ قوم بن کر ملک کے چیلنجز سے مقابلہ کر سکیں فوجی افسروں کو سوشل میڈیا سے دور رہنا کا کہا گیا ہے عوام کی حمایت فو ج کے لیے ضروری ہے آرمی چیف جس طرف دیکھتے ہیں 7 لاکھ افواج اسی جانب دیکھتی ہیں فوج اتحاد کے تحت کام کرتی ہے اگر عدالتیں رات 12 بجے تک کھلی ہیں تو ان کا اپنا معاملہ ہے کسی سیاسی جماعت کے لیڈر کو افطار ڈنر پر بلانے کے بارے میں میرے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں ہمارے سیکورٹی چیلنجز بہت بڑے ہیں۔ آپ سب پاکستان کے محل وقوع سے واقف ہیں ہم انھی سیکیورٹی چیلنجز کو Tackle کر لیں یہی ہماری کامیابی ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ فوج کے خلاف پراپیگنڈہ کے خلاف کاروائی کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ فوج اگر کوئی قدم اٹھائے گی، کسی کو پکڑے گی تو الزام فوج پر آئے گا کہ فوج نے حدود سے تجاوز کیا ہے۔ لہذا یہ ذمہ داری حکومت کی ہے۔ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کیے جانے والے پراپگینڈہ کے خلاف Laws ہونے چاہیئں۔ کچھ تو پہلے سے موجود ہیں ان پر عملدرآمد ہونا چاہیے اور جو نہیں ہیں وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے بننے چاہیئں۔ قومی سلامتی میں سیاسی استحکام بہت اہم ہے۔ سیاسی استحکام نہ ہو تو قومی سلامتی اور معیشت پر بھی شدید اثرات پڑتے ہیں۔ جو پچھلے دنوں میں ہوتا رہا ہے وہ جمہوریتوں میں ہوتا ہے اور سیاسی استحکام کو مکمل طور پر بحال کرنے میں کچھ مزید وقت لگے گا۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ آرمی چیف شہبازشریف کی تقریب حلف برداری میں اس لیے نہیں گئے وہ بیمار تھے، ملک میں سیاسی استحکام کے لیے کچھ وقت درکارہے،سی پیک اسٹریٹجک پراجیکٹ ہے ،ہم اس کی رفتار پر سمجھوتہ نہیں کرتے،

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے ،انہوں نے ملک کو نقصان پہنچایا آرمی چیف کا عمران خان کے ساتھ اچھا تعلق ہے عمران خان نے فوج کےحوالے سے اچھے بیانات دیئے ہیں،تمام ملک میں جلسے جلوس ہوتے ہیں، سب کھل کر بات کرسکتے ہیں،آزاد فضا میں ہر کوئی کھل کر بات کرتا ہے، اس جگہ تک پہنچنے کیلئے ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں،انتخابات کب ہونے ہیں آگے کیسے جانا ہے یہ ہمارا کام نہیں ، سیاستدانوں کا کام ہے،

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ لاہور میں تشدد کا بہت بد قسمت واقعہ ہوا ہے ،واقعے کی تحقیقات ہوں گی، تشدد میں ملوث عناصر کو قانون کے مطابق سزا ہوگی ہمیں اپنے معاشرے کو پرتشدد ماحول سے باہر نکالنے کی ضرورت ہے مشیر قومی سلامتی کے مستقبل کافیصلہ نئی حکومت کرے گی

بھارتی آرمی چیف کا جھوٹ ایک بار پھر بے نقاب،بھارت نے کی راہ فرار اختیار

‏اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق باتیں پروپیگنڈا ہے. ڈی جی آئی ایس پی آر

یہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ کشمیر پر کسی قسم کی کوئی ڈیل ہوئی، ڈی جی آئی ایس پی آر

بھارت کی ایک اور جھوٹی کہانی بے نقاب، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کی باغی ٹی وی کی خبر کی تصدیق

بھارت ایک اور ڈرامہ رچانے میں مصروف، 26/11 طرز کے حملے کا الرٹ جاری

کیا بھارت بھی میڈیا کواجازت دے گا؟ ڈی جی آئی ایس پی آر

غیر ملکی سفیروں،دفاعی اتاشی کا ایل او سی کا دورہ، ڈی جی آئی ایس پی آر نے دی اہم بریفنگ

مورال بلند،فوج اپنا کام کر رہی ہے،پاکستان نے ذمہ دار رياست ہونے کا ثبوت دیا، ڈی جی آئی ایس پی آر

ہمارے شہدا ہمارے ہیرو ہیں،ترجمان پاک فوج کا راشد منہاس شہید کی برسی پر پیغام

سیکیورٹی خطرات کے خلاف ہم نے مکمل تیاری کر رکھی ہے، ترجمان پاک فوج

الیکشن پر کسی کو کوئی شک ہے تو….ترجمان پاک فوج نے اہم مشورہ دے دیا

فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے ، دعا ہے علی سد پارہ خیریت سے ہو،ترجمان پاک فوج

طاقت کا استعمال صرف ریاست کی صوابدید ہے،آپریشن ردالفسار کے چار برس مکمل، ترجمان پاک فوج کی اہم بریفنگ

Shares: