خواتین پرگھریلو تشدد صرف کسی قانون سے ختم نہیں ہو سکتا

0
70

وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر پیغام میں کہا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد ایک مجرمانہ فعل ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ کا کہنا تھا کہ خواتین کے خلاف تشدد اور جبر ناقابل برداشت ہے۔ معاشرے میں خواتین پر تشدد کے رجحان کو روکنا ہمارا فرض ہے۔ اسلام نے خواتین کو مساوی حقوق دیئے، خواتین پر تشدد کے واقعات کی روک تھام کیلئے ہم سب کو مذہبی، سماجی اور اخلاقی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی

سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ عورت پر تشدد کی مہذب معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں ،بدقسمتی سے قوانین کے باوجود آج بھی خواتین کو اس مشکل کا سامنا ہے چند وجوہات ایسے واقعات کا کم رپورٹ ہونا اور معاشرے کا اس طرز عمل کو قبول کرنا ہے عورت کی عزت اور زندگی اہم ہیں اس پر سمجھوتا نہ کریں

لاک ڈاؤن ختم کیا جائے، شوہر کے دن رات ہمبستری سے تنگ خاتون کا مطالبہ

لاک ڈاؤن، فاقوں سے تنگ بھارتی شہریوں نے ترنگے کو پاؤں تلے روند ڈالا

کرونا مریض اہم، شادی پھر بھی ہو سکتی ہے، خاتون ڈاکٹر شادی چھوڑ کر ہسپتال پہنچ گئی

کرونا لاک ڈاؤن، رات میں بچوں نے کیا کام شروع کر دیا؟ والدین ہوئے پریشان

پولیس اہلکار نے لڑکی کو منہ بولی بیٹی بنا کر زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا، نازیبا ویڈیو بھی بنا لیں

نوجوان لڑکی سے چار افراد کی زیادتی کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس ان ایکشن

خاتون سے زیادتی اور زبردستی شادی کی کوشش کرنے والا ملزم گرفتار

واش روم استعمال کیا،آرڈر کیوں نہیں دیا؟گلوریا جینز مری کے ملازمین کا حاملہ خاتون پر تشدد،ملزمان گرفتار

مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی سابق مرکزی سیکرٹری جنرل و رکن پنجاب اسمبلی سیدہ زہرا نقوی نے خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر کہا ہے کہ عالم اسلام میں خواتین پر تشدد اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے اسلام نے خواتین کو جن حقوق سے نوازا کسی معاشرے میں اس کی مثال نہیں ملتی انہوں نے کہا کہ پاکستانی خواتین پر تشدد ایک بڑا المیہ ہے ۔ خواتین پر گھریلو تشدد، جسمانی تشدد، جنسی طور پر ہراساں کرنے جیسے مسائل کے متعلق آگاہی اور شعور و بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران پاکستان میں خواتین پر تشدد کے 63 ہزار سے زائد واقعات رونما ہونا لمحہ فکریہ ہے اس پر حکومتوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے حکومتیں خواتین کے حقوق کے لئے تعلیم اداروں میں نصاب کو شامل کریں تاکہ معاشرے میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے شعور پیدا ہو

پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کادن منایا جا رہا ہے۔مقصد خواتین پر ذہنی اور جسمانی تشدد اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔خواتین کو محفوظ اور تشدد سے پاک ماحول فراہم کرنا پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے

نوجوان جوڑے کو برہنہ کرنے کا کیس،ملزم عثمان مرزا کے والدین بھی عدالت پہنچ گئے

نوجوان جوڑے کو برہنہ کرنے کا کیس،ملزم عثمان مرزا کے ریمانڈ میں توسیع

نوجوان جوڑے کو برہنہ کرنے کا کیس،ریاست کو مدعی بننا چاہئے،صارفین

نوجوان جوڑے کو برہنہ کرنے کا کیس، وزیراعظم نے بڑا اعلان کر دیا

نوجوان جوڑے کو برہنہ کرنے کا کیس،جوڑے کے وارنٹ گرفتارری جاری

عثمان مرزا کیس،لڑکے اور لڑکی کو برہنہ کرنے کی ویڈیو عدالت میں چلا دی گئی

عورت پر تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہی عورت کو عزت کے نام پر تشدد کیا جاتا ہے یا ان کو زندگی سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ایسے واقعات تط ہی روح نما ہوتے ہیں جب عورت اپنے آپ کو کمزور اور بے بس سمجھتی ہے مظلوم کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے اس ظلوم کو برداشت کرتی رہتی ہے اور ایک دن یہ برداشت جان لیوا ثابت ہوتی ہے اور زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے ۔ عورتوں کے ساتھ ہونے والی بہت سی زیادتیوں کی طرح گھریلو تشدد بھی ایک طرح کا عزت کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے جسے دوسروں خاندان والوں سے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ گھریلو تشدد یا رشتہ داروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے کے بیشتر واقعات منظر عام پر ہی نہیں آتے۔ یہ تشدد کے واقعات زیادہ تر پسماندہ علاقوں میں زیادہ رپورٹ کئے گئے ہیں۔ کیونکہ ایسی خواتین کو نا صرف تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے بلکے عورتوں کے بنیادی حقوق سے بھی آگاہ نہیں کیا جاتا۔
پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پرویڈیوز یا ایسی خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں جس میں ایک شوہر نے اپنی اہلیہ کو بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اور وہ اپنی جان کی بازی ہار گئی یا ہسپتال پہنچ گئی ,لیکن سوال یہ ہے کہ عورت یہ ظلم برداشت کیوں کرتی ہے؟ کون سے ایسے عوامل ہے جو اس اذیت کو برداشت کرنے پر مجور کر دیتی ہے مجبور عورتیں اپنے گھر کو بچانے کےلئے اپنے بچوں کی خاطر یہ تشدد برداشت کرتی ہے نا ان کو اپنے میکے سے سپورٹ ملتی اور معاشرے میں طاق یافتہ کہلانے کا ڈر ایک مجبور عورت کو یہ گھریلو ظلم سہنے پر مجبور کرتا ہے۔گھریلو تشدد کا موضوع ایسا ہے جس پر بات کرنا آسان نہیں ہے۔ جب بھی گھر کی چاردیواری کے اندر جب بھی خواتین پر تشدد کی جاتی ہے تو معاشرے میں ہاہا کار مچ جاتی ہے۔ عورت سے طرح طرح کے سوال پوچھے جاتے ہیں؟ کبھی اُس سے پوچھا جاتا ہے جب تھمارا شوہر مارتا تھا تب کیوں نہیں آئی؟ تب آواز کیوں نہیں اٹھائی کہ تم نے یہ پہلے رپورٹ کیوں نہیں کیا؟ کبھی اُس سے پوچھا جاتا ہے کہ ثبوت دکھاؤ کہ کیا تم پر واقعی تشدد ہوا ہے یا نہیں؟

ایسے سوالات ایک کمزور عورت کو یہ سب تشدد برداشت کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں ایک بے سہارا عورت آخر اپنے شوہر کا ہاتھ چھوڑ کر جائے گی کہاں؟ اس کو اپنے بچوں کو بھی چھوڑنا پر سکتا ہے۔اگر ایک عورت اپنے ماں باپ کے گھر جانا چاہے تو اُس کو بھی ایک یہ بھی مسئلہ بنایا جاتا ہے۔ اگر ایک عورت ملازمت کرنا چاہے اور اپنے بچوں کی اچھی پرورش کرنا چاہئے تو تب بھی کہرام مچا دیا جاتا ہے اگر وہ اپنے میکےاپنے ماں باپ کو بتانا چاہتی ہے تو اس پر بھی اس کو روکا جاتا ہے یا وہ خود روک جاتی ہے گھر بتایا تو وہ پریشان ہونگے۔عورت کو یہ سمجھا کر چپ کروا دیا جاتا ہے کہ شوہر ہے چار دیواری کے اندر مسئلے کو حل کرو اپنے بچوں کی خاطر برداشت کرو اچھے دن بھی آئیں گے اگر گھر چھوڑ دیا یا طاق ہو گئی تو ان بچوں کا کیا ہوگا کہاں جاو گی

گھریلو تشدد  صرف کسی قانون سے ختم نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے ہمیں اپنے معاشرے کے اندر ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے جس میں آگاہی دی جائے کہ ہماری بیٹیوں ،بہنوں کو بتایا جائے کہ آپ کے کیا حقوق ہیں؟ آپ اگر کسی جگہ شادی کر کے جا رہی ہیں تو آپ نے کن چیزوں کو مدّنظر رکھنا ہے اگر ہم ان چیزوں کے اُوپر عملدآمد کریں گے تو ہم اس گھریلو تشدد جیسے عفریت پر قابو پا سکیں گے۔ ورنہ یہ چیزیں ہمیشہ پاکستان کے ساتھ رہیں گی اور اگر پاکستان کو آگے لے کر چلنا ہے تو ہمیں ابھی ان چیزوں کے اوپر قابو پانا ہوگا۔خواتین کو ان قوانین استعمال کےلئے جو ان کو تحفظ دے گا شعور اجاگر کیا جائے اور ایک مضبوط عورت اس تشدد کے واقعات پر خود ہی قابو پا سکتی ہیں اگر وہ یہ عزم کر لے کہ ظلم کو سہنا نہیں اپنے حق کے لئے لڑنا ہے تو ان واقعات پر قابو پایاجا سکتا ہے۔

Leave a reply