اسلام آباد ہائیکورٹ، سائفر کیس ،ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم ،عمران خان، قریشی بری

0
192
imran khan shah mehmod qureshi

اسلام آباد ہائیکورٹ ،سائفر کیس میں سزا کے خلاف عمران خان اور شاہ محمود کی اپیلوں پر سماعت ہوئی

عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا جو اب سنا دیا گیا ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں بری کر دیا.اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔محفوظ فیصلہ اسلام ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن نے سنایا،عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں رہا کرنے کا حکم دے دیا،

سائفر کیس فیصلہ سے قبل ، کمرہ عدالت میں پولیس اہلکاروں نے روسٹرم کے سامنے حصار بنا لیا تھا ، تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان، شعیب شاہین و دیگر کمرہ عدالت میں موجود تھے، اس موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے. عامر ڈوگر نے عدالت میں موجود رہنمائوں و کارکنان کو ہدایت کی کہ سائفر کیس کے فیصلے کے وقت عدالت میں کوئی نعرے بازی نہیں کرنی ،

عدالتی فیصلے کے بعد بھی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی رہائی ممکن نہیں، عمران خان کو دوران عدت نکاح کیس میں بھی سزا ہو چکی ہے جبکہ شاہ محمود قریشی کو نو مئی کے مقدمات میں بھی گرفتار کیا گیا ہے، لاہور پولیس نے شاہ محمود قریشی کی گرفتاری 25 مئی کو اڈیالہ جیل میں ڈالی تھی،بعد ازاں عدالت نے شاہ محمود قریشی کا ریمانڈ دیا تھا، لاہور کی جے آئی ٹی کی پانچ رکنی تفتیشی ٹیم 26 مئی کو اڈیالہ جیل آئی تھی،عمران خان پر بھی نومئی کے مقدمے ہیں

بانی پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں بریت کا مختصر فیصلہ جاری کر دیا گیا،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مختصر فیصلہ جاری کیا،جس میں کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کی سزا کیخلاف اپیلیں منظور کی جاتی ہیں، سائفر کیس میں ٹرائل کورٹ کا 30 جنوری کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، بانی پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کو مقدمے سے بری قرار دیا جاتا ہے،اگر کسی دوسرے کیس میں قید نہیں تو بانی پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کو فوری رہا کیا جائے،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی،پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی اور حامد علی شاہ عدالت میں پیش نہ ہوئے،معاون پراسیکیوشن نے کہا کہ حامد علی شاہ راستے میں ہیں،20منٹ دے دیں وہ آجائیں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا ہم آپ کے لئیے یہاں پر بیٹھے ہوئے ہیں،میں نے آج ریگولر ڈی بی اسی لئیے کینسل کر دی ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق برہم ہو گئے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ حامد علی شاہ صاحب کہاں ہیں؟معاون پراسیکیوٹر نے کہا کہ شاہ صاحب معروف اسپتال میں ہیں میری ابھی ان سے بات کوئی ہے،

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اسٹیٹ کونسل عبد الرحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے آپ نے کوئی ایسا ٹرائل کنڈکٹ کیا ہے،آج آرام سے تیار کر کے ہمیں دے دیں،آپ نے ابھی تک کونسا کرمنل کیس کا ٹرائل کیا ہے ،ان کیسز کی لسٹ دے دیجیے گا ،کیس ٹائٹل کس کورٹ میں تھا تاکہ ہم اسکو ویرفائی کر سکیں،

اعظم خان نے سائفر سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو دیا، اس سے متعلق کوئی دستاویز موجود نہیں،وکیل
سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوٹر کی جانب سے کہا گیا کہ ہم نے 342 میں گناہ تسلیم کیا ہے، سیکریٹریٹ رولز کے مطابق اعظم خان جوابدہ ہیں ان سے پوچھا جانا چاہیے ،سکریٹریٹ رولز کا ذکر حامد علی شاہ نے یہاں نہیں کیا، سلمان صفدر کی جانب سے سپریم کورٹ کی مختلف عدالتی نظریوں کا حوالہ دیا گیا، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان نے سائفر سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو دیا، اس سے متعلق کوئی دستاویز موجود نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سائفر وصولی سے متعلق تو آپ کےموکل کا اپنا اعتراف بھی موجود ہے،وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یہ تو پراسیکیوشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بات ثابت کریں، قانون بڑا واضح اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں ،پراسیکیوشن نے کیس ثابت کرنے کی ذمہ داری پوری کرنی ہے،اگر 342 کا بیان لینا ہے تو مکمل بیان کو لیا جائے گا ،ٹکڑوں میں بیان نہیں لے سکتے ،رات 12 بجے تک سماعت ہو ئی، صبح8 بجے سابق پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کا بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے ،جب 342 کا بیان ریکارڈ ہو ا،اس دن فیصلہ بھی سنا دیا گیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد دلائل دیے گئے،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ 2کونسلز جنہوں نے ٹرائل کورٹ میں جرح کی انہوں نے کبھی کرمنل کیس لڑا ہے، اگر انہوں نے کیسز لڑے ہیں تو تمام کیسز کی لسٹ تیار کر کے عدالت میں جمع کروا دیں،

سائفر کی 9کاپیاں واپس نہیں آئی تھیں،تو پہلے انکوائری شروع کیوں نہیں کی گئی،وکیل
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ملزم نے سائفریا دشمن ملک کو دے دیا،اپنے پاس رکھا یا اسکو رٹین کر دیا پراسیکیوشن کوئی ایک بات کرے،اگر برآمدگی نہیں ہوئی تو پھر یہ چارج کیسے لگ گیا،عمران خان کی حد تک یہ جرم اپلائی بھی نہیں کرتا،جب سائفرشفٹ کیا گیا اسکا کوئی ثبوت عدالت میں لیکر نہیں آئے،9کاپیاں واپس نہیں آئی تھیں،تو پہلے انکوائری شروع کیوں نہیں کی گئی،ہمیں کسی ایک کے بارے میں انکوائری دکھا دیں،جو 8 کاپیاں لیٹ آئیں انکے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی،جب ثبوت کو ضائع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو 201 لگتی ہے سائفر تو انکے پاس موجود ہے، سلمان صفدریہ صرف سیاسی انتقام ہے،سائفر تو ان لوگوں کے پاس موجود ہے تو پھر کیوں نہیں لائے,تین چیزوں کو میں عدالت میں بیان کرنا چاہتا ہوں ،تین چیزیں عدالت میں پیش نہیں کی گئی سائفر ڈاکومنٹ نہیں آیا ، سائفر کا کانٹینٹ اور سائفر بک لیٹ ٹرائل کورٹ میں پیش کی گئی، سائفر سے متعلق بک لیٹ راجہ رضوان عباسی نے ٹرائل کورٹ میں پیش نہیں کی اور شاہ صاحب ہائیکورٹ میں لے آئے ،

ایف آئی اے پرسکیوٹر ذالفقار علی نقوی کمرہ عدالت پہنچ گئے

عدالت میں کسی مخصوص ملک کا نہیں بتایا گیا جس کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے،وکیل
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ حامد علی شاہ گزشتہ تین سماعت پر موجود نہیں تھے،مزید ثبوت جمع کروانے کے متفرق درخواست بھی مسترد کی گئی ، حامد علی شاہ نے ڈیڑھ ماہ عدالت میں دلائل دیتے رہے ہیں ، ثبوت بعد میں لائے گئے اس کا مطلب کے ہم کیس ثابت نہیں کر سکے،عدالت نے کئی سوالات پوچھے شاہ صاحب نے کہا اس کا جواب بعد میں دوں گا اب شاہ صاحب عدالت میں ہی نہیں ،اعظم خان خود کہتے ہیں کہ سائفر گم ہو گیا ہے،دفتر خارجہ کو آگاہ کر دیا ہے،اعظم خان نے اپنے بیان میں بتایا ملٹری سکریٹری، اے ڈی سی اور دفتر کا سٹاف ڈھونڈتا رہا،دفتر خارجہ کو آگاہ کرنے کے بعد آئی بی نے انکوئری کرنی تھی جو نہیں کی گئی،میری استدعا ہے کے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو تمام چارجز سے ڈسچارج کیا جائے۔جس سورس سے آیڈیوز،ویڈیوز آتی ہیں اسکی آئی پی ایڈریس ٹریس نہیں ہوئی،عدالت میں کسی مخصوص ملک کا نہیں بتایا گیا جس کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے،جب ہم ضمانت پر ائے تو انہوں نے کہا ضمانت کا حق حاصل نہیں ،پھر ہم اپیل میں گئے وہاں بھی کہا گیا اپیل کا حق بھی نہیں مل سکتا،نقوی صاحب نے کہا ان کو کھانسی آتی تھی درخواست دیتے تھے، یہ بات درست ہے ہم نے 55 درخواستیں دیں،جج صاحب نے کام ہی ایسا کیا کیا کرتے،آخر میں آ کر کہتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ کیس واپس بھیجا جائے تا کہ غلطیاں ختم کی جائیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ اس بات کو چھوڑیں ہم جانیں پراسیکیوشن جانے،ٹرائل کورٹ میں جو پہلے دو راؤنڈ تھے اس میں جرح آپ نے کی تھی ناں،وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جی جی بلکل ایسا ہی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر پراسیکیوشن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کیس کو ٹرائل کورٹ واپس بھیج دیں اس میں خامیاں ہیں،سلمان صفدر صاحب! آپ اس پر کیا کہنا چاہتے ہیں وہ بتا دیں،وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آج ہمیں اس کیس میں 3 ماہ ہو گئے ہیں، ہر کیس کہ ایک اسٹیج ہوتی ہے ہم اس سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں ، 2 بار کیس ریمانڈ بیک ہوچکا تیسری بار کیس ریمانڈ بیک کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ، عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے پراسکیوٹر ذولفقار علی نقوی صاحب کی جانب سے کہا گیا کیس کو میرٹ پر نہیں سنا جا سکتا،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم آپ سے قانونی طور پر معاونت چاہتے ہیں ،

دس سال کے لئے کسی کو جیل میں رکھنا صرف اس پر ہو سکتا ہے کہ تعلقات "خراب ہو سکتے تھے،عدالت
سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہونے پر ایف آئی سے پراسیکیوٹر ذولفقار عباس نقوی نے دلائل کا آغاز کر دیا۔دلائل کے آغاز میں ہی چیف جسٹس عامر فاروق ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذولفقار عباس نقوی پر شدید برہم ہو گئے،عدالت نے کہا کہ آپ خالی یہ کہہ رہے ہیں "تعلقات خراب ہو سکتے تھے” قانون کی منشا یہ نہیں ، آپ نے کسی کو سزائے موت دینی ہے ،دس سال کے لئے کسی کو جیل میں رکھنا صرف اس پر کیا ہو سکتا ہے کہ تعلقات "خراب ہو سکتے تھے” ،عدالت نے اسپیشل پراسکیوٹر کو ہدایت کی کہ فائیو ون سی پڑھیں آپ کا کیس یہ ہے ، جان بوجھ کر سائفر عمران خان نے اپنے پاس رکھی اس سے متعلق بتائیں ، اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی سائفر عوام کے سامنے لایا، سائفر ایک کلاسیفائیڈ دستاویز ہے، سابق وزیراعظم نے سائفر کا کنٹینٹ بھی پبلک کیا جس سے مختلف ممالک سے تعلقات خراب ہوئے ، گواہ کے مطابق بانی پی ٹی آئی کو بار بار کہا گیا سائفر کاپی کے ساتھ یہ نا کریں ، 342 کے بیان میں بانی پی ٹی آئی مان رہے ہیں ، عدالت نے کہا کہ اگر وہ کہہ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں جان بوجھ کر کر رہے ہیں ، آپ نے ثابت کرنا ہے ، عدالت نےاسپیشل پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ یہ کہنا کہ "یہ نا کرو” یہ الگ چیز ہے آپ نے رولز دیکھنے ہیں،کس نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو رولز کے مطابق ڈائریکشن دی ؟ اسپیشل پراسکیوٹر نے کہا کہ قانون یہ کہتا ہے کہ وہ سائفر کاپی اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے ، عدالت نے کہا کہ یہ تو رولز ہیں کوئی الگ سے قانون تو نہیں ، سپریم کورٹ کا قانون واضع ہے جہاں ملزم تسلیم بھی کر لے تو پراسیکوشن نے ثابت کرنا ہے ،اگر آپ کاپی ٹرائل کورٹ کو دیکھا دیتے تو پھر پراسیکوشن کا کیس بن سکتا تھا ، پتہ تو چلتا جو افسانہ ہے وہ افسانہ ہے کیا ؟کورٹ کے اندر کلاسیفائیڈ نہیں ہوتا ، کورٹ میں قانون کے طریقہ کار بتا دیا ہے کلاسیفائیڈ کو ڈیل کیسے کرنا ہے ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے مانا ہے یا نہیں آپ اس کو چھوڑیں آپ نے اسکو ثابت کرنا ہے،کیا وزیراعظم کو بتایا گیا تھا اس ڈاکومنٹ کو واپس کرنا ہے، سائفر کو جو کنٹینٹ ہے وہ عدالت کو بتانا چاہیے تھا ناں، کورٹ میں کوئی دستاویز کلاسیفائیڈ نہیں ہوتی، جس چیز کا ہمیں پتہ ہی نہیں ہم نے دیکھا ہی نہیں اس پر ہم کیا کریں ،پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہمارا چارج ہے اس میں انفارمیشن لیک کی گئی ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کونسی انفارمیشن لیک کی گئی ، شاہ صاحب دنیا گول ہے،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ایف آئی اے پرسکیوٹر سے استفسار کیا کہ تیس جنوری کو سزا سنائی گئی، آپ نے کتنی دیر دلائل دیے تھے،پراسکیوٹر نے کہا کہ تھوڑی دیر دلائل دیے ،عدالت نے کہا کہ تھوڑی دیر کیا مطلب چار گھنٹے 15 منٹس؟ پراسکیوٹر نے کہا کہ ایک گھنٹہ میرے خیال سے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ 11:30 پر 342 کا بیان ریکارڈ ہوا 2 بجے فیصلہ آ گیا ،342 بیان ریکارڈ کرنے کے ایک ڈیڑھ گھنٹے کے اندر 70 صفحات پر مشتمل فیصلہ آ گیا،ہم اپنے فیصلے میں لکھیں گے کہ بہت اچھا ٹرائل ہوا ہے، پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر ٹرائل ٹھیک نہیں ہوا تو ریمانڈ بیک کر دیں ، عدالت نے کہا کہ تین مہینے آپ کو اور سلمان صفدر کو سنا اب ہم واپس کیسے بھیج سکتے ہیں کوئی دلائل ہے آپ کے پاس، آپ بھی پراسیکیوشن تھے عدالت کو بتانا چاہیے تھا ٹیک اٹ ایزی ،فائیو ون سی کا تقاضا پورا کیا یا نہیں ؟ وہ بتائیں ،مجھے جو سمجھ آتی ہے آپ نے تقاضا پورا نہیں کیا ،پراسیکوشن نے کہاں ثابت کیا ہوا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے ؟آپ نے ایک پری written ججمنٹ لکھی ہوئی ہے یہ کوئی طریقہ نہیں ،ایک اسٹیج پر حامد علی شاہ صاحب نے کہا تھا ہم ٹرائل کا دفاع کریں گے ، ہم لکھیں گے یہ آئیڈیل ٹرائل تھا اس سے بہتر ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا تھا ،ساڑھے تین ماہ سن سن کر اب تو میرے اسٹاف کو بھی یاد ہو گیا ہو گا ،

بنچ اٹھ کر چیمبر چلا گیا ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم دس پندرہ منٹ میں واپس آرہے ہیں ، کیا دنیا میں کوئی justify کر سکتا ہے کہ دوپہر کو 342 کا بیان مکمل ہوتا ہے اور 77 صفحے کا فیصلہ آجاتا ہے ، آپ بھی کہہ سکتے تھے آپ نے بھی غیر معمولی جلدی تیزی دیکھائی ،

سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیاتھا جو اب سنا دیا گیا ہے.

سائفر سیکیورٹی کا مقصد یہی ہے کہ سائفر کو کسی غیر متعلقہ شخص کے پاس جانے سے روکا جائے،

سائفر کیس،اعظم خان نے مقدس کتاب ہاتھ میں رکھ کر بیان دیا تھا،ایف آئی اے پراسیکیوٹر

اعظم خان نے اعتراف کیا سائفر کی کاپی وزیراعظم نے واپس نہیں کی، ایف آئی اے پراسیکیوٹر

سائفر کیس،ڈاکومنٹ کی کاپی عدالتی ریکارڈ میں پیش نہیں کی گئی،عدالت

ثابت کریں کہ جو پبلک ریلی میں لہرایا گیا وہ سائفر تھا ،عدالت کا پراسیکیوٹر سے مکالمہ

سائفر کیس، عمران خان، قریشی کو سزا سنانے والے جج بارے اہم فیصلہ

سائفر کی کاپی کی ساری ذمہ داری پرنسپل سیکرٹری اعظم خان پر تھی،وکیل عمران خان

سائفر کیس:اسد مجید اسٹار گواہ ہو سکتے تھے ابھی اسد مجید نے تو کچھ نہیں کہا کہ وہ اسٹار گواہ بن سکتا

پاکستان کے بعد امریکی ایوان میں بھی سائفر بیانیہ کو جھوٹ کا پلندا کہ دیا،شیری رحمان

انتخابات سے قبل تشدد کے واقعات پر خصوصاً تشویش رہی، ڈونلڈ لو

ڈونلڈ لو کی کانگریس میں طلبی پر امریکی دفتر خارجہ کا ردعمل

سائفر کیس،یہ آخری بات ہو گی کہ میں کہو ں ٹرائل جج کو ایک اور موقع دے دیں،وکیل عمران خان

سائفر کیس،عمران خان کی اپیل پر سماعت ایک روز کے لئے ملتوی

سائفر کیس،یہ کہتے تھے ضمانت کا حق نہیں ، سپریم کورٹ نے ضمانت بھی دی،سلمان صفدر

سائفر کیس،عمران خان کی سزا کیخلاف اپیل پر سماعت،التوا کی درخواست مسترد

سائفر کیس،عمران خان کی سزا کیخلاف اپیل قابل سماعت ہی نہیں، پراسیکیوٹر

سائفر کیس،عمران خان، شاہ محمود قریشی کو ٹرائل کورٹ نے کتنی سزا سنائی تھی؟
جج ابوالحسنات ذوالقرنین کو خصوصی عدالت کا جج تعینات کیا گیا تھا، اڈیالہ جیل میں کیس کی سماعت ہوئی تھی اور سائفر کس میں جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے عمران خان اور شاہ محمو د قریشی کو سزا سنائی تھی، سائفر کیس کی خصوصی عدالت نے کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10،10 سال قید با مشقت کی سزا سنادی،سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت سزا سنائی گئی تھی، بانی پی ٹی آئی پر مقدمہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 5 اور9 کی دفعات کے تحت درج تھا جب کہ سائفرکیس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 بھی لگائی گئی تھی،سیکرٹ ایکٹ 1923 سیکشن 5 حساس معلومات کو جھوٹ بول کر آگے پہنچانے سے متعلق ہے، سیکرٹ ایکٹ 1923 کا سیکشن 9 جرم کرنےکی کوشش کرنے یاحوصلہ افزائی سے متعلق ہے۔کسی کے پاس حساس دستاویز، پاسورڈ یا خاکہ ہو اوراس کا غلط استعمال ہو تو سیکشن 5 لگتی ہے، حساس دستاویزات رکھنے کے حوالے سے قانونی تقاضے پورے نہ کرنے پربھی سیکشن 5 لاگو ہوتا ہے پاکستان پینل کوڈ سیکشن 34 کے تحت شریک ملزمان کا کردار بھی مرکزی ملزم کے برابر ہوگا، سیکرٹ ایکٹ 1923 سیکشن 5 سب سیکشن 3 اے کے تحت سزائے موت بھی ہوسکتی ہے جب کہ سیکرٹ ایکٹ 1923 سیکشن 5 سب سیکشن 3 اے کے تحت زیادہ سے زیادہ14 سال قیدکی سزا ہوسکتی ہے۔

سائفر کا معاملہ کیا ہے؟
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے امریکا میں پاکستانی سفیر کے مراسلے یا سائفرکو بنیاد بنا کر ہی اپنی حکومت کے خلاف سازش کا بیانیہ بنایا تھا جس میں عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں امریکا کا ہاتھ ہے تاہم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سائفر کو لے کر پی ٹی آئی حکومت کے مؤقف کی تردید کی جاچکی ہے۔ سائفر سے متعلق عمران خان اور ان کے سابق سیکرٹری اعظم خان کی ایک آڈیو لیک سامنے آئی تھی جس میں عمران خان کو کہتے سنا گیا تھا کہ ’اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، امریکا کا نام نہیں لینا، بس صرف یہ کھیلنا ہے کہ اس کے اوپر کہ یہ ڈیٹ پہلے سے تھی جس پر اعظم خان نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سائفر کے اوپر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں‘۔اس کے بعد وفاقی کابینہ نے اس معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کیا تھا اعظم خان پی ٹی آئی کے دوران حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری تھے اور وہ وزیراعظم کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔سائفر کے حوالے سے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا تھا سائفر پر ڈرامائی انداز میں بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی اور افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جس کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا تھا۔

Leave a reply