دہلی فسادات،مسلمان جی رہے ہیں خوف کے سائے میں، مذہبی شناخت چھپانے پر مجبور،خواتین نے حجاب اتار دیا

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے بعد بھارت میں مسلمان اپنی مذہبی شناخت چھپانے پر مجبور ہو گئے ہیں، کئی مسلمانوں نے اپنے نام بدل لئے، خواتین نے برقعہ اتار دیا،ملتے وقت السلام علیکم کہنا چھوڑ دیا

دہلی فسادات کے بعد مسلمان خوف کی کیفیت میں رہ رہے ہیں، انہیں ابھی تک اس بات کا خدشہ ہے کہ کسی بھی وقت ہندو انتہا پسند ان پر حملہ کر سکتے ہیں ، ہندو غنڈوں سے بچنے کے لئے مسلمانوں نے اپنی مذہبی شناخت چھپانا شروع کر دی ہے، بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایک شہری شاہین باغ کی طرف میٹرو پر سفر کر رہا تھا کہ ایک 50 سالہ شخص نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ میٹرو شاہین باغ کی طرف جارہی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں تین اسٹیشن کے بعد شاہین باغ آتا ہے۔ شہباز نے اس شخص کے چہرے پر اضطرابی کیفیت دیکھی اور وہ پورے سفر میں پریشان نظر آرہا تھا۔ جب وہ شخص ٹرین سے اترا تو اس نے اپنی جیب سے ٹوپی نکالی اور اسے پہن لیا۔

میٹرو بس میں سفر کرنے والے اس شخص کے بارے میں ایک شہری کا کہنا تھا کہ اس شخص کو دیکھنے کے بعد مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ وہ ضعیف آدمی تھا اور صوم و صلوٰۃ کا پابند نظر آتا تھا۔ اس نے اپنی شناخت چھپانے کیلئے ٹوپی ترک کردی اور اپنا لہجہ بھی بدل کر بات کیا۔ اب دہلی مسلمانوں کیلئے عذاب بنتی جارہا ہے۔ مسلمانوں کے اندر ایک خوف سا پیدا ہوگیا ہے۔

ہندو انتہا پسند تنظیموں سے مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے اس بات کو لے کر سبھی پریشان ہیں، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرنے والی ایک لڑکی جو باحجاب رہا کرتی تھی اب اس نے حجاب ترک کردیا ہے۔ اس کا کہنا ہے عوام مجھ سے خوش دلی سے بات کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ اگر تم مسلمان ہو تو اپنے گھر تک رہو۔ اگر حجاب کرکے باہر نکلوگی تو تمہاری زندگی کو خطرہ ہے، زندہ رہنے کے لئے حجاب ترک کرنا پڑے گا۔

مہرین فاطمہ نامی مسلم پی ایچ ڈی اسکالر ہیں وہ کہتی ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اللہ حافظ یا السلام علیکم کہتی تھی لیکن اب یہ کہنا بند کردیا ہے۔ میٹرو ٹرین میں سفر کے دوران میں خود کو انجلی بتاتی ہوں اور گھر میں میرا نام ادیبہ ہے لیکن ہندو فرقہ پرستوں کے ڈر سے میں نے اپنا نام تبدیل کردیا ہے۔

دہلی فسادات کو ایک ہفتہ ہو چکا، ابھی تک وہاں کے مسلمانوں میں خوف کم نہیں ہو سکا،کئی خاندان علاقہ چھوڑ گئے تھے اب واپس آنے کے لئے راضی نہیں ہو رہے، کیجریوال سرکار مسلمانوں کو سیکورٹی بھی نہیں دے رہی،کئی مسلمان خاندان پناہ گزینوں کے کیمپ میں مقیم ہو گئے ہیں.اس کیمپ میں 15 سو کے قریب افراد موجود ہیں جنہوں نے فسادات کے وقت گھر چھوڑا تھا.

دہلی میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے متنازعہ شہریت بل کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر تشدد کیا گیا، مسلمانوں کے گھر جلائے گئے، مساجد کی بے حرمتی کی گئی اور ایک مسجد کو شہید کیا گیا.بھجن پورہ میں مزار کو نذر آتش کیا گیا، اشوک نگر میں مسجد کو آگ لگائی گئی اور مینار پر ہنومان کا جھنڈا بھی لہرا دیا گیا۔

گجرات کا "قصائی” مودی دہلی میں مسلمانوں پر حملے کا ذمہ دار ،بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھنے لگیں

دہلی میں پولیس بھی ہندوانتہا پسندوں کی ساتھی، زخمی تڑپتے رہے، پولیس نے ایمبولینس نہ آنے دی

دہلی جل رہا تھا ،کیجریوال سو رہا تھا، مودی سن لے،ظلم و تشدد ہمیں نہیں ہٹا سکتا، شاہین باغ سے خواتین کا اعلان

دہلی میں ظلم کی انتہا، درندوں نے 19 سالہ نوجوان کے سر میں ڈرل مشین سے سوراخ کر دیا

دہلی تشدد ، خاموشی پرطلبا نے کیا کیجریوال کے گھر کا گھیراؤ، پولیس تشدد ،طلبا گرفتار

امریکا سمیت متعدد ممالک کی دہلی بارے سیکورٹی ایڈوائیزری جاری

دہلی فسادات، 42 سالہ معذور پر بھی مسجد میں کیا گیا بہیمانہ تشدد

دہلی فسادات کا ذمہ دار کون؟ جمعیت علماء ہند نے کی نشاندہی

دہلی فسادات اور 2002 کے گجرات فسادات میں گہری مماثلت،ہندوؤں کی دکانیں ،گھر کیوں محفوظ رہے؟ سوال اٹھ گئے

دہلی فسادات، کوریج کرنیوالے صحافیوں کی شناخت کیلیے اتروائی گئی انکی پینٹ

دہلی، اجیت دوول کا دورہ مسلمانوں کو مہنگا پڑا، ایک اور نوجوان کو مار دیا گیا

دہلی فسادات میں امت شاہ کی پرائیویٹ آرمی ملوث،یہ ہندوآبادی پر دھبہ ہیں، سوشل ایکٹوسٹ جاسمین

ہندو انتہا پسندوں کے تشدد سے 53 افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں جبکہ 400 سے زائد زخمی ہیں، پولیس بھی ہندو انتہا پسندوں کا ساتھ دیتی رہی، ہندو انتہا پسند مسلمانوں کے گھروں میں لوٹ مار بھی کرتے رہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بھی بناتے رہے، اس دوران صحافیوں پر بھی حملے کئے گئے

Shares: