دہلی پولیس کا دہلی فسادات میں مارے گئے لوگوں کی مکمل معلومات دینے سے انکار

5 سال قبل
تحریر کَردَہ

دہلی پولیس کا دہلی فسادات میں مارے گئے لوگوں کی مکمل معلومات دینے سے انکار

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق دہلی پولیس نے دہلی فسادات میں مارے گئے لوگوں کی مکمل معلومات دینے سے انکار کر دیا ہے

ایک آر ٹی آئی کے جواب میں دہلی پولیس نے بتایا ہے کہ فروری میں نارتھ -ایسٹ دہلی میں ہونے والے تشدد میں 23 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ اس سے پہلے وزارت داخلہ نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ اس تشدد میں 52 جانیں گئی ہیں۔

ساوتھ ایشین وائر کے مطابق کامن ویلتھ ریسرچ کے ایکسیس ٹو انفارمیشن پروگرام کے پروگرام ہیڈ وینکٹیش نایک نے دہلی فسادات میں مارے گئے لوگوں کے نام اور پتہ، گرفتار کئے گئے لوگوں کے نام، دہلی پولیس کنٹرول روم کے نوٹس بورڈ پر دکھائے گئے گرفتار لوگوں کی مصدقہ کاپی ،فسادات کے دوران سبھی پولیس اسٹیشنوں میں حراست میں لیے گئے لوگوں کے نام کے متعلق معلومات مانگی تھی۔دہلی پولیس نے آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کے تحت 30 دن کے اندر جواب دینے کی طے مدت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ہی نوڈل ڈپارٹمنٹ وزارت داخلہ کے اعدادوشمار کے برعکس جواب بھیجا ہے۔

دہلی پولیس کی کرائم برانچ کے ڈپٹی پولیس کمشنر اورپبلک انفارمیشن افسر جوائے ٹرکی نے 13 اپریل 2020 کو بھیجے اپنے جواب میں کہا کہ دہلی میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد میں کل 23 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ باقی معلومات آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کی دفعہ 8 (1) ایچ کے تحت نہیں دی جا سکتی۔

درخواست میں مرنے والوں کے نام اور پتہ کی بھی معلومات مانگی گئی تھی لیکن پولیس نے اس کودینے سے انکار کر دیا۔دہلی پولیس کا یہ جواب مرکزی وزارت داخلہ کے ذریعے پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے مرنے والوں اور گرفتار کئے گئے لوگوں کے اعدادوشمار کے مقابلے میں آدھے سے بھی کم ہے۔

18 مارچ 2020 کو بھارت کے مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نے راجیہ سبھا میں پیش کئے اپنے تحریری جواب میں کہا تھا کہ دہلی پولیس کی رپورٹ کے مطابق دہلی فسادات میں کل 52 لوگ مارے گئے اور 545 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ ایم ڈی ایم کے کے جنرل سکریٹری اور تمل ناڈو سے راجیہ سبھا ایم پی وائیکو کے ایک اور سوال کے جواب میں وزیر نے ایوان کو بتایا کہ تشدد میں کل 3304 لوگوں کو گرفتار یا حراست میں لیا گیا تھا اور 12 مارچ 2020 تک میں 763 کیس درج کئے گئے، جس میں سے 51 کیسز آرمز ایکٹ کے تحت درج کئے گئے۔

دہلی فسادات کوکئی ہفتے گزر چکے، ابھی تک وہاں کے مسلمانوں میں خوف کم نہیں ہو سکا،کئی خاندان علاقہ چھوڑ گئے تھے اب واپس آنے کے لئے راضی نہیں ہو رہے، کیجریوال سرکار مسلمانوں کو سیکورٹی بھی نہیں دے رہی،کئی مسلمان خاندان پناہ گزینوں کے کیمپ میں مقیم ہو گئے ہیں.اس کیمپ میں 15 سو کے قریب افراد موجود ہیں جنہوں نے فسادات کے وقت گھر چھوڑا تھا.

دہلی میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے متنازعہ شہریت بل کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر تشدد کیا گیا، مسلمانوں کے گھر جلائے گئے، مساجد کی بے حرمتی کی گئی اور ایک مسجد کو شہید کیا گیا.بھجن پورہ میں مزار کو نذر آتش کیا گیا، اشوک نگر میں مسجد کو آگ لگائی گئی اور مینار پر ہنومان کا جھنڈا بھی لہرا دیا گیا۔

گجرات کا "قصائی” مودی دہلی میں مسلمانوں پر حملے کا ذمہ دار ،بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھنے لگیں

دہلی میں پولیس بھی ہندوانتہا پسندوں کی ساتھی، زخمی تڑپتے رہے، پولیس نے ایمبولینس نہ آنے دی

دہلی جل رہا تھا ،کیجریوال سو رہا تھا، مودی سن لے،ظلم و تشدد ہمیں نہیں ہٹا سکتا، شاہین باغ سے خواتین کا اعلان

دہلی میں ظلم کی انتہا، درندوں نے 19 سالہ نوجوان کے سر میں ڈرل مشین سے سوراخ کر دیا

دہلی تشدد ، خاموشی پرطلبا نے کیا کیجریوال کے گھر کا گھیراؤ، پولیس تشدد ،طلبا گرفتار

امریکا سمیت متعدد ممالک کی دہلی بارے سیکورٹی ایڈوائیزری جاری

دہلی فسادات، 42 سالہ معذور پر بھی مسجد میں کیا گیا بہیمانہ تشدد

دہلی فسادات کا ذمہ دار کون؟ جمعیت علماء ہند نے کی نشاندہی

دہلی فسادات اور 2002 کے گجرات فسادات میں گہری مماثلت،ہندوؤں کی دکانیں ،گھر کیوں محفوظ رہے؟ سوال اٹھ گئے

دہلی فسادات، کوریج کرنیوالے صحافیوں کی شناخت کیلیے اتروائی گئی انکی پینٹ

دہلی، اجیت دوول کا دورہ مسلمانوں کو مہنگا پڑا، ایک اور نوجوان کو مار دیا گیا

دہلی فسادات میں امت شاہ کی پرائیویٹ آرمی ملوث،یہ ہندوآبادی پر دھبہ ہیں، سوشل ایکٹوسٹ جاسمین

ہندو انتہا پسندوں کے تشدد سے 53 افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں جبکہ 400 سے زائد زخمی ہیں، پولیس بھی ہندو انتہا پسندوں کا ساتھ دیتی رہی، ہندو انتہا پسند مسلمانوں کے گھروں میں لوٹ مار بھی کرتے رہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بھی بناتے رہے، اس دوران صحافیوں پر بھی حملے کئے گئے

ممتاز حیدر

ممتاز حیدر اعوان ،2007 سے مختلف میڈیا اداروں سے وابستہ رہے ہیں، پرنٹ میڈیا میں رپورٹنگ سے لے کر نیوز ڈیسک، ایڈیٹوریل،میگزین سیکشن میں کام کر چکے ہیں، آجکل باغی ٹی وی کے ساتھ بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں
Follow @MumtaazAwan

Latest from بین الاقوامی