جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی رویے کے ذمہ داران چیف منسٹر اور چیف ایگزیکٹو ہیں،اسلام آباد ہائی کورٹ

0
55

ایک قیدی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کو اڈیالہ جیل میں بااثر قیدیوں سے متعلق لکھے خط پر سماعت ہوئی اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بظاہر جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی رویے کے ذمہ داران چیف منسٹر اور چیف ایگزیکٹو ہیں-

باغی ٹی وی : تفصیلات کے مطابق ہائی کورٹ میں جیلوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے کیس کی سماعت ہوئی وزارت انسانی حقوق کی رپورٹ پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جیلوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار کون ہے؟-

عدالت نے استفسار کیا کہ بظاہر جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی رویے کے ذمہ داران چیف منسٹر اور چیف ایگزیکٹو ہیں، کیوں نا غیر انسانی رویے کی وجہ سے قیدیوں کو معاوضہ دیا جائے؟ قیدیوں کےلیےمعاوضہ ان حکام سے لیاجائےجو غیرانسانی رویےکےذمہ دار ہیں۔

کیوں نامیڈیا کو جیلوں میں قیدیوں تک رسائی کی اجازت دی جائےتاکہ انفارمیشن سامنے آئے،اسلام آباد ہائی کورٹ

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ ریاست اپنے شہریوں پر ظلم نہیں کرسکتی اگر ہورہا ہے تو کوئی نہ کوئی ذمہ دار ہوگا، جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ رویہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی زندہ مثال ہے۔

اسلام آبادہائی کورٹ نے ایک ماہ میں وزارت انسانی حقوق سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 12 جنوری کوایک قیدی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کو اڈیالہ جیل میں بااثر قیدیوں سے متعلق لکھے خط پر سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے تھے کہ وزرا اور ججز بھی دو تین دن جیل میں رہیں تو انہیں مشکلات کا اندازہ ہو۔

وزیر اعظم ایک روزہ دورے پر کوئٹہ روانہ،آرمی چیف بھی نوشکی پہنچ گئے

سماعت کے دوران عدالت کو ڈائریکٹر جنرل انسانی حقوق نے بتایا تھا کہ بغیر کسی فزیکل پرابلم کے بااثر قیدی اڈیالہ جیل کے ہسپتال میں رہ رہے ہیں، وزیر صاحبہ نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی ہے ، اڈیالہ جیل میں شکایت کا نظام فعال نہیں ہے، ہائی کورٹ کے فیصلے سے سپریڈنٹ جیل بھکر اور اڈیالہ آگاہ ہی نہیں تھے ہم جب بھی وزٹ کرتے ہیں اس سے قبل ہی ہر چیز اوکے ہوتی ہے لیکن حقیقت ایسا نہیں ہوتی، ہم نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ جیل اتھارٹیز نے درحقیقت کوئی کام نہیں کیا، دو ہزار کی جگہ پانچ ہزار سے زیادہ قیدی اڈیالہ جیل میں رکھے گئے ہیں۔

تحریک عدم اعتماد جلد لائی جائے گی، شاہد خاقان عباسی

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ کسی سوسائٹی کی گورننس کو دیکھنا ہو تو ان کی جیلوں کا جائزہ لے لیں، جو باہر طاقت ور ہے جیل کے اندر بھی طاقت ور ہے ، جیل کے اندر کرپشن کا جو الزام ہے یہ کیسے ٹھیک ہو گا ، جیلوں کے اندر کوئی رول آف لاء نہیں،بااثر اور عام قیدی میں بھی تفریق ہے آپ نے جیلوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو ختم کرنا ہے، دیکھ لیں جیسے کراچی میں ہوا ہے جہاں قیدی ہسپتال کرائے پر لے کر رہ رہے تھے جیل ٹرائل کے لیے نہیں، کبھی قیدی بن کر جیل گئے ہیں؟ وکلا تحریک میں بہت سارے وکیل بھی جیلوں میں گئے، ایسا کیوں نا کریں کابینہ ممبر اور ججز بھی اگر دو دو تین تین دن جیل رہیں تو سمجھ سکیں گے کہ یہ کتنا مشکل ہوتا ہے،عدالت کس کو کہے کہ وہ تین چار دن جیل میں جا کر گزارے؟ آپ بتائیں نا کس کو تجویز کریں کہ وہ تین چار دن جیل کے اندر رہے پھر بتائے کیا چل رہا ہے-

آسٹریلیا نے دورہ پاکستان کیلئے ٹیسٹ اسکواڈ کا اعلان کر دیا

Leave a reply