یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے،عدالت کا اٹارنی جنرل کو حکم
یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے،عدالت کا اٹارنی جنرل کو حکم
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں ملازمین کی معلومات شہری کو فراہم کرنے کے حکم کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ آپکو کیوں معلومات چاہیے؟ درخواست گزار نے کہا کہ بطور شہری سپریم کورٹ کے ملازمین کی معلومات چاہئیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا وزارت قانون سپریم کورٹ کی کنٹرولنگ وزارت ہے? اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ نہیں، کنٹرولنگ وزارت نہیں بلکہ متعلقہ وزارت ہے، عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ ادارے متاثرہ فریق نہیں ہو سکتے،
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت قانون اعلیٰ عدلیہ کے نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے اس لیے متعلقہ وزارت ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا وزارت قانون نے سپریم کورٹ کی اجازت سے یہ درخواست دائر کی ہے، سپریم کورٹ کا مطلب سپریم کورٹ ہے، کیا فل بینچ نے اسکی اجازت دی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ سے نہیں پوچھ سکتا تھا کہ انہوں نے اجازت لی یا نہیں،عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ ادارے متاثرہ فریق نہیں ہو سکتے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت قانون اعلیٰ عدلیہ کے نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے اس لیے متعلقہ وزارت ہے، انفارمیشن کمیشن نے فیصلہ دیا اور رجسٹرار سپریم کورٹ متاثرہ فریق تھے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پہلے یہ فرق سمجھ لیں کہ رجسٹرار سپریم کورٹ، سپریم کورٹ نہیں ہے، اس ہائیکورٹ میں غیرقانونی بھرتیاں ہوئیں اور ہم نے انکے خلاف کارروائی کی، کیا ان بھرتیوں کا ذمہ دار رجسٹرار آفس ہو گا یا تمام ججز ذمہ دار ہونگے؟ کوئی ریاستی ادارہ متاثرہ نہیں ہو سکتا رجسٹرار متاثرہ ہو سکتا ہے، شہری نے سپریم کورٹ کی نہیں رجسٹرار آفس سے متعلق معلومات مانگی ہیں، اس ہائیکورٹ نے رجسٹرار کو پرنسپل اکاؤنٹنٹ افسر مقرر کیا ، اور تمام چیزیں وہ دیکھتے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ شہری نے رجسٹرار آفس سے نہیں بلکہ سپریم کورٹ سے متعلق معلومات مانگی ہیں، اٹارنی جنرل
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا اس ہائیکورٹ کا رجسٹرار ہائیکورٹ ہو سکتا ہے؟ ہائیکورٹ تو اس ہائیکورٹ کے ججز ہیں، اس عدالت نے رجسٹرار کو پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر بنایا ہے کیونکہ کل آڈٹ ہو سکے، رجسٹرار کی ذمہ داری بھی ہو گی تو کل احتساب بھی ہو سکے گا، چیف جسٹس کسی بھرتی میں تو شامل نہیں ہو گا، اس شہری کے تو رجسٹرار سپریم کورٹ آفس سے متعلق معلومات مانگی ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی عدالتوں سے متعلق معلومات قانون کے مطابق فراہم نہیں کی جا سکتیں،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ قانون معلومات کی فراہمی کے قانون سے متصادم کیسے ہو سکتا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون بنانے والوں اگر آئینی عدالتوں کو اس سے باہر رکھا ہے تو کیا غلط ہے،اگر یہ عدالت وفاقی قانون کے تحت بنائی گئی ہو تو پارلیمنٹ کل تہس نہس کر دیگی، جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نہیں نہیں، کوئی ایسا نہیں کر سکتا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ تک پہنچنے کیلئے کسی کو میرے اوپر سے گزرنا پڑیگا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نہیں نہیں، ہم آپکو بیچ میں نہیں ڈالیں گے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ اور یہ ہائیکورٹ آئینی عدالتیں ہیں، آئینی عدالتوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہیں،
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ عدالت اگر فیصلہ دیتی ہے تو اسکے خلاف اپیل کہاں دائر ہو گی، سپریم کورٹ تو خود درخواست گزار ہے وہ اپیل کیسے سن سکتے ہیں، چھپانے کیلئے کچھ نہیں، عوام تک معلومات کیوں نہیں پہنچنی چاہیے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایسا کچھ نہیں جو چھپایا جائے، آئینی عدالت کی معلومات کی فراہمی قانون کے مطابق نہیں کی جا سکتی، عدالت نے کہا کہ آرٹیکل 19 کہاں روکتا ہے کہ آئینی اداروں کی معلومات نہیں فراہم کی جائے گی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 19 میں مناسب پابندیوں کا بھی ذکر ہے. اور یہ معلومات اس میں آتی ہے،
رجسٹرار سپریم کورٹ اور وزارت قانون کی درخواستیں قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا، اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ میں رجسٹرار سپریم کورٹ کی نمائندگی نہیں بلکہ عدالت کے نوٹس پر آیا ہوں،درخواست گزار نے کہا کہ آئین اور دیگر قانون دونوں ہی پارلیمنٹ بناتی ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواست گزار شہری سے استفسار کیا کہ باقی دنیا میں کیا پریکٹیس ہے ؟بھارت میں کیس پر جو فیصلہ ہوا تھا اس کی کاپی بھی عدالت دیں، کمیشن نے کورٹ کے بارے میں ایک آرڈر پاس کیا جسے چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اس عدالت نے رجسٹرار کو کہا کہ معلومات فراہم کی جائیں، مشکل یہ ہے کہ آپ اس عدالت کے پاس آئے ہیں کہ معلومات نہیں دینا چاہتے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستان میں پانچ ہائی کورٹس ہیں، یہ معاملہ اس عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب ججز کی تنخواہ قانون کے مطابق ہے تو کوئی بھی شہری اسکی معلومات لے سکتا ہے، اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ اگر اس متعلق قانون کی تشریح ہو جائے تو پھر ہو سکتا ہے، انفارمیشن کمیشن نے جو فیصلہ دیا وہ اس کا اختیار نہیں تھا،جو معلومات مانگی گئی اس میں ایسا کچھ نہیں تھا جو چھپایا جاتا،جس پر عدالت نے کہا کہ تو پھر معلومات دے دینی چاہیے تھی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر میں رجسٹرار ہوتا تو شاید معلومات دے دیتا،
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ رجسٹرار سے معلومات لے کر شہری کو دیدیں، یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے،شہری کو یہ نہیں لگنا چاہیے کہ اس سے کچھ چھپایا جا رہا ہے،شہری کا عدالت پر اعتماد سب سے زیادہ اہم ہے،
نواز شریف کی نئی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع، نواز ذہنی دباؤ کا شکار،جہاز کا سفر خطرناک قرار
جس ڈاکٹر کا سرٹیفیکٹ لگایا وہ امریکہ میں اور نواز شریف لندن میں،عدالت کے ریمارکس
اشتہاری ملزم کی درخواستیں کس قانون کے تحت سن سکتے ہیں،نواز شریف کے وکیل سے دلائل طلب
نواز شریف کی جیل میں طبیعت کیوں خراب ہوئی تھی؟ نئی میڈیکل رپورٹ میں اہم انکشاف
اشتہاری مجرم کی ضمانت منسوخی کی ضرورت ہے؟ نواز شریف کیس میں عدالت کے ریمارکس
نواز شریف کو مفرور بھی ڈکلیئر کر دیں تو تب بھی اپیل تو سنی جائے گی،عدالت
گرفتاری پہلے، مقدمہ بعد میں، مہذب ممالک میں کبھی ایسا دیکھا ہے؟ مریم نواز
جاوید لطیف نوازشریف کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں،مریم نواز
قائمہ کمیٹی اجلاس،سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، رانا شمیم کے نہ آنے پرجاوید لطیف کا بڑا اعلان