کسی کو تاحیات نااہل کرنا بہت سخت سزا ہے، چیف جسٹس

0
34
سپریم کورٹ کے باہر سیکورٹی سخت،پیپلز پارٹی،جے یو آئی کی درخواست دائر

آرٹیکل 63 اے تشریح کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کو آرٹیکل 17 ٹو کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں آرٹیکل 17 کی ذیلی شق 2 کے تحت سیاسی جماعتوں کے حقوق ہوتے ہیں, اٹارنی جنرل اشتر اوصاف روسٹرم پر آگئے،چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ کے آنے کا شکریہ,کیا آپ اس معاملے پر عدالت کی معاونت کریں گے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر عدالت چاہے گی تو عدالت کی معاونت کروگا,اگلے ہفتے منگل کو عدالت کی معاونت کروں گا ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے بڑا اہم اور پیچیدہ سوال ہے،ایسے معاملات پر کہیں لائن کھینچنا پڑے گی,پیر کو صدارتی ریفرینس پر ہماری معاونت کریں,کیا آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح اس انداز سے کرسکتے ہیں جس سے سیاسی و قانونی استحکام آئے,کیا آئینی تشریح میں پارٹی سربراہ کو اجازت دے دیں, پارٹی سربراہ چاہے تو منحرف ارکان کے خلاف کاروائی کرے, پارٹی سربراہ نہ چاہے تو کاروائی نہ کرے,ہمارے سیاسی نظام میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ، ہیجان،دباؤ اور عدم استحکام موجود ہے, عدالت نے فریقین کے درمیان فیصلہ کرنا ہوتا ہے,ہزاروں مقدمات عدالتوں کے سامنے زیر التوا ہیں,

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی بحث سے کسی نہ کسی سمت کا تعین ہوجائے گا,جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کیا جائے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہر معاملہ عدالت میں آرہا ہے,

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن میں نااہلی ریفرنس پر رائے نہیں دے سکتے منحرف ارکان کا معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر التواء ہے،اظہر صدیق نے کہا کہ میرا مقدمہ نااہلی ریفرنس نہیں ہےمیرا مقدمہ یہ ہے کہ دن کی روشنی میں پارٹی کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا، جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ اس معاملے کا جائزہ الیکشن کمیشن نے لینا یے،الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف اپیل سپریم کورٹ ہی آئے گی،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپکی پارٹی کے کچھ لوگ ادھر کچھ ادھر ہیں،ق لیگ کے سربراہ خاموش ہیں، ایک بلوچستان کی پارٹی ہے انکے لوگوں کا پتہ نہیں وہ کدھر ہیں آدھی پارٹی ادھر ہے آدھی پارٹی ادھر ہے،جس کی چوری ہوتی ہے اسکو معلوم ہوتا ہے،ان پارٹیوں کے سربراہ ابھی تک مکمل خاموش ہیں،وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ بھارت میں منحرف ارکان کیلئے ڈی سیٹ نہیں بلکہ نااہلی کا لفظ استعمال ہوا ہے,

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بھارت کے شیڈول 10 میں منحرف رکن کی نااہلی کی معیاد کتنی ہے؟ یہ کیوں کہتے ہیں کہ سیاستدان چور ہیں؟ جب تک تحقیقات نہیں کی جاتیں تو ایسے بیان کیوں دیتے ہیں؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 28 مارچ کو عدم اعتماد پر قرارداد منظور ہوئی, اکتیس مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونا تھی, یہ سوال پوچھنا چاہیے تھا کہ عدم اعتماد کیوں لائی گئی, اکتیس مارچ کو ارکان نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا, ہم نے آئین کا تحفظ کرنا ہے, اس لیے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا ریفرنس سن رہے ہیں,منحرف ارکان سے متعلق آرٹیکل 63 اے کا کوئی مقصد ہے,آئینی ترامیم کے ذریعے 63 اے کو لایا گیا 1970 سے جو میوزیکل چیئر چل رہی ہے اسے ختم ہونا چاہیے،وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ میری نظر میں قانون غیر موثر ہے،ابھی بھی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ کس کو غلط اقدام کا اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے،قانون کے اندر عدالت کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی،

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انحراف کی ایک سزا ڈی سیٹ ہونا ہے،ڈی سیٹ کے ساتھ دوسری سزا کیا ہو سکتی ہے،آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی معیاد کا ذکر نہیں،سوال یہ ہے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کو کسی دوسرے آرٹیکل کے ساتھ ملا سکتے ہیں؟ڈی سیٹ ہونا آئینی نتیجہ ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ منحرف کو نااہل کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا کیا نااہلی کیلئے ٹرائل ہوگا،اگر رشوت کا الزام لگایا ہے تو اسکے شواہد کیا ہوں گے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انحراف بزات حود ایک آئینی جرم ہے، مخرف ارکان کیلئے ڈی سیٹ ہونا سزا نہیں ہے،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قانون کے مطابق الیکشن ہوں گے تو یہ چیزیں ختم ہو جائیں گی،مسلم لیگ ق کے وکیل اظہر صدیق کے دلائل مکمل ہو گئے

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر بحث ہوتی تو سب سامنے آتا،تحریک عدم اعتماد پر لیو گرانٹ ہونے کے بعد کوئی بحث نہیں کرائی گئی،بحث ہوتی تو کوئی سوال پوچھتا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کیوں کی گئی،وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ جماعت سے انحراف کے معاملات 1960 سے چلتے آرہے ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 1960 سے معاملات نہیں چل رہے آئین میں جمہوری طریقے سے ترمیم کے بعد 63 اے شامل کیا گیا ہے، کسی کو تاحیات نااہل کرنا بہت سخت سزا ہے،سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کی کچھ شرائط مقرر کر رکھی ہیں،سمجھتے ہیں انحراف ایک سنگین غلطی ہے،ملک کو مستحکم گورنمنٹ کی ضرورت ہے تاکہ ترقی ہو سکے،ملک میں 1970 سے اقتدار کی میوزیکل چئیر چل رہی ہے،کسی کو بھی غلط کام سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے،

کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی

فارن فنڈنگ کیس، کیا فیصلہ روز محشرکیلئے چھوڑ دیا گیا ہے؟ احسن اقبال

عمران خان،عثمان بزدار آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے،احسن اقبال

ایک ہزار سے زائد خواتین، ایک سال میں چار چار بار حاملہ، خبر نے تہلکہ مچا دیا

ایک برس میں 10 ہزار سے زائد کسانوں نے کس ملک میں خودکشی کی؟

فرار ہونیوالے ملزمان میں سے کتنے ابھی تک گرفتار نہ ہو سکے؟

طالب علم سے زیادتی کر کے ویڈیو بنانیوالے ملزم گرفتار

آئین شکنی، اب لگے گا عمران خان اور اسکے ہمنواؤں پر آرٹیکل 6، تیاریاں شروع

سپیکرکی رولنگ غلط، پیچھے موجود تمام افراد پر آرٹیکل 6 لگنا چاہئے،قمرزمان کائرہ

قانونی اصلاحات کریں، توبہ کا دروازہ تو ہمیشہ کھلا رہتا ہے،سپریم کورٹ

Leave a reply