ٹرمپ کے حریف جوبائیڈن کی پارٹی ڈیموکریٹک پرایک نظر
باغی ٹی وی : امریکہ میں آج انتخابات ہو رہے ہیں. آج امریکا میں ووڈٹنگ ہو رہی ہے . انتخاب کا دن ہے . ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جوبائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین مقابلہ ہے،دونوں حریفوں نے عوام کا اعتماد جیتنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی ہے پنسلوانیا اور مشی گن میں جوبائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اپنے حمایتیوں سے خطاب کیا۔ڈیموکریٹک پارٹی امریکہ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے، جس کی تاریخ 192 سال پرانی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن میں سخت مقابلہ متوقع ہے ساتویں امریکی صدر اینڈریو جیکسن (Andrew Jackson) کی حمایتوں نے تھامس جیفرسن (Thomas Jefferson) اور جیمز میڈیسن (James Madison) کی قیادت میں 1828 میں ڈیموکریٹک ریپبلکن پارٹی کی بنیاد رکھی تھی، جس کا نام بعد میں بدل کر ڈیموریٹک پارٹی رکھ دیا گیا۔
امریکی سیاسی کلچر میں ڈیموکریٹک پارٹی کو آزاد خیال تصور کیا جاتا ہے۔ یہ جماعت اپنے ابتدائی دور میں سفید فام کی بالادستی پر یقین رکھتی تھی۔ 1820 کی دہائی تک امریکہ میں ووٹ کا حق صرف زمینداروں اور لینڈ لارڈز طبقے کو تھا۔
سال 1829 میں امریکی صدر اینڈریو جیکسن نے سفید فام امریکیوں کو ووٹ کا حق دے دیا لیکن سیاہ فام کمیونٹی کو اس سے محروم رکھا گیا۔ 1850 کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر سے سیاہ فام امریکیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھنے لگی۔
اس کے نتیجے میں پارٹی دو واضح دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک دھڑا سفید فام کمیونٹی کی بالادستی جبکہ دوسرا دھڑا سیاہ فام افراد کو حقوق دینے کے حق میں تھا۔ اسی دھڑے بندی کے نتیجے میں امریکہ کی دوسری بڑی سیاسی ری پبلکن پارٹی وجود میں آئی جس نے 1860 میں ڈیموکریٹ کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کو عوام میں اپنا اعتماد بحال کرنے میں نصف صدی لگ گئی اور 1910 کے بعد پارٹی نے ترقی پسند پالیسیاں اپنائیں اور خواتین کو ووٹ کا حق دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ڈیموریٹک پارٹی کیلئے گدھے کا نشان بھی اس لیے رکھا گیا کیونکہ اسے عام شخص کی سواری قرار دیا گیا۔
1920 کی دہائی میں عظیم معاشی بحران نے ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے دوبارہ راہ ہموار کی اور اس دوران پارٹی نے سیاہ فام کمیونٹی کا اعتماد بھی حاصل کیا۔
بیسوی صدی کے اوائل میں ڈیموکریٹک پارٹی کاروباریوں کی حمایت کرنے والوں اور قدامت پرستوں میں بٹ گئی، تاہم نئی ڈیل کے بعد پارٹی پر امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں قدامت پسندوں کی گرفت کمزور ہوگئی۔
میں ہونے والی نئی ڈیل کے نتیجے میں ڈیموریٹک پارٹی نے یورپ سے امریکہ منتقل ہونے والے ووٹروں کی بڑی حمایت حاصل رہی ہے۔
ٹرمپ کا بھارت میں استقبال کیوں ہو گا؟ نیویارک ٹائمز نے مودی سرکار کو بے نقاب کر دیا
بھارت میں کھڑے ہوکر ٹرمپ نے پاکستان بارے ایسا کیا کہہ دیا کہ مودی کو پسینے چھوٹ گئے
ٹرمپ کو ویلکم کرتے وقت مودی نے ایسے نام سے پکارا کہ ٹرمپ منہ دیکھتے رہ گئے، دیا کھرا جواب
ٹرمپ کی موجودگی میں مودی کی ایک اور رسوائی
مودی نے کشمیریوں پر مظالم کے حوالہ سے امریکہ کی آنکھوں میں دھول جھونکی، صدر آزاد کشمیر
امن کا دشمن مودی، ٹرمپ سے ملاقات میں جنگی ہیلی کاپٹر خریدنے سمیت 3 ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ
ٹرمپ بھارت سے جاتے جاتے مودی کی "زبان” بول گیا
انیس سو چونسٹھ کے شہری حقوق ایکٹ اور انیس سو پینسٹھ کے ووٹنگ رائٹس ایکٹ کے بعد ڈیموریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی کے بنیادی ڈھانچے اور پالیسوں میں تبدیلی آئی، جس کے بعد امریکہ کی جنوبی ریاستیں رپبلکن پارٹی کی حمایت کرنے لگیں جبکہ شمال مشرقی ریاستیں زیادہ تر ڈیموکریٹک بن گئیں۔
امریکی تاریخ کے واحد سیاہ فام صدر باراک اوباما کا تعلق بھی ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چار سالہ دور میں سیاہ فام کمیونٹی کے ساتھ جو ناروا سلوک کے واقعات پیش آئے ہیں، کل 3 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں
خبر رساں ادارے کے مطابق حالیہ مختلف پول یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ڈیمو کریٹک امیدوار بائیڈن کو قومی سطح پر صدر ٹرمپ پر سات پوائنٹس کی برتری ہے۔ زیادہ تر امریکی ریاستیں اپنا وزن ایک سیاسی جماعت کے پلڑے میں ڈالتی ہیں۔ لیکن تقریباً ایک درجن کے قریب سوئنگ اسٹیٹس الیکشن کے نتیجے پر فیصلہ کن انداز میں اثرانداز ہوتی ہیں کیوں کہ یہ ریاستیں دونوں جماعتوں میں سے کسی کے نام بھی ہو سکتی ہیں۔
سوئنگ ریاستوں میں بائیڈن کو چار پوائنٹس کے ساتھ معمولی برتری حاصل ہے۔ صدر ٹرمپ پر امید ہیں کہ وہ 2016 کی طرح اس بار بھی سوئنگ ریاستوں میں کامیابی حاصل کر کے الیکٹورل ووٹوں کے ذریعے پھر جیت جائیں گے۔ وہ ان فیصلہ کن سوئنگ ریاستوں کے حوالے سے پر امید ہیں جن میں پینسلوینیا، مشی گن اور وسکانسن شامل ہیں۔ انہوں نے 2016 کے انتخابات میں ان ریاستوں میں تھوڑے سے فرق سے جیت اپنے نام کی تھی