بھارت کا دوہرا معیار،دہلی فسادات میں مسلمانوں پر ہوا ظلم، اب چارج شیٹ میں فسادات کے ذمہ دار مسلمان قرار

0
31

بھارت کا دوہرا معیار،دہلی فسادات میں مسلمانوں پر ہوا ظلم، اب چارج شیٹ میں فسادات کے ذمہ دار مسلمان قرار

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق دہلی میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے حوالہ سے دہلی پولیس نے مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرا دیا ، دہلی پولیس کے سپیشل سیل نے دہلی فسادات پر 17 ہزار صفحات پر مشتمل چارج شیٹ عدالت میں جمع کروا دی

سی اے اے کے حق میں مہم چلانے والوں جیسے کپل مشرا کا نام چارج شیٹ میں شامل نہیں ہے۔ دہلی پولیس نے اس سال فروری میں بھارتی دارالحکومت دہلی میں برپا کئے گئے فسادات کیلئے صرف مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

دہلی فسادات کے سلسلے میں دائر چارج شیٹ میں 15 افراد کو نامزد کیا گیا ہے،تمام 15 افراد پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ اور اسلحہ ایکٹ کی دفعات کے تحت الزام عائد کیا گیا ہے۔ کرکرڈوما عدالت میں دائر چارج شیٹ 17،000 صفحات پر مشتمل ہے اور پولیس نے ان دستاویزا کو اسٹیل کے دو بکسوں میں لے جا کر عدالت میں جمع کروایا ہے

دہلی فسادات کی چارج شیٹ میں عمر خالد اور شرجیل امام کو ابھی تک نامزد نہیں کیا گیا تا ہم پولیس کا کہنا ہے کہ ضمنی چارج شیٹ دائر کی جائے گی اس میں ان دونوں کو نامزد کیا جائے گا

دہلی فسادات میں کم از کم 50 سے زائد مسلمان جان کی بازی ہا ر گئے تھے، مسلمانوں کے گھروں، دکانوں کو جلا دیا گیا تھا انکی کروڑوں کی املاک تباہ ہو گئی تھیں تا ہم اب چارج شیٹ میں مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا ہے،چارج شیٹ میں جن لوگوں کے نام شامل کئے گئے ہیں ان میں عام آدمی پارٹی کے معطل لیڈر طاہر حسین اور کئی طلبہ کے نام شامل ہیں۔

پولیس نے عدالت کو بتایا کہ سیلم پور اور ظفرآباد میں فساد برپا کرنے کیلئے دو واٹس ایپ گروپس کا استعمال کیا گیا۔ تائید کرنے والوں نے درمیانی درجہ کے قائدین کو استعمال کرتے ہوئے پولیس کو نشانہ بنایا۔ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ اس احتجاج میں حصہ لینے کیلئے 20 کیلو میٹر پیدل چلے۔ شروع سے ہی یہ کوئی جمہوری احتجاج نہیں تھا۔ احتجاج کے پہلے دن سے ہی تشدد کیلئے بھڑکایا جارہا تھا۔ احتجاجیوں نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑے کرنے کی مہم چلاتے ہوئے غیرجمہوری طریقہ سے احتجاج کیا جس کے نتیجہ میں تشدد کیلئے بھڑکایا گیا۔

دہلی پولیس نے چارج شیٹ میں مزید الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مرکز کے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) پر فرقہ وارانہ فسادات کروائے گئے۔ دہلی میں دو گروپوں سی اے اے کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ اس احتجاج کے دوران امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ بھی بھارت میں موجود تھے جہاں ٹرمپ اور مودی کی ملاقات ہورہی تھی۔ دہلی شہر کے کئی حصوں میں بڑے پیمانے پر جھڑپیں دیکھی گئیں۔ تشدد، آتشزنی اور سنگباری کی وجہ سے 53 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے اور سینکڑوں گھر نذرآتش کئے گئے۔

دہلی تشدد کی تحقیقات کے لئے اسپیشل سیل نے 6 مارچ کو ایف آئی آر درج کی تھی۔ اسی کے تحت یہ چارج شیٹ داخل کی گئی ہے۔ اس واقعہ کی تحقیقات کے سبب اسپیشل سیل 20 افراد کو گرفتار کرچکی ہے، جن میں شرجیل امام، دیوانگنا، صفورا زرگر، نتاشا، عشرت جہاں، شفاء الرحمن، فاطمہ، میران حیدر شامل ہیں۔

قبل ازیں بھارت کے اقلیتی حقوق کمیشن نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ  دارالحکومت نئی دہلی میں رواں برس کے اوائل میں متنازع شہریت قانون (سی اے اے) کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران مسلمانوں کے قتل و غارت اور املاک کو نقصان پہنچانے میں قانون کے حامیوں کے ساتھ پولیس بھی شامل رہی۔

خبر ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق دہلی کے اقلیتی کمیشن (ڈی ایم سی) نے اوپن رپورٹ جاری کی ہے، جس میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے منظم مظالم کو بیان کیا گیا ہے۔ڈی ایم سی نے کہا کہ رواں برس فروری میں متنازع شہریت قانون کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کے موقع پر شمال مشرقی دہلی میں فسادات کے دوران مسلمانوں کے گھر، دکانیں اور گاڑیوں کو ہدف بنایا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 11 مساجد، 5 مدارس، مسلمانوں کی ایک درگاہ اور قبرستان پر حملہ کیا گیا اور انہیں نقصان پہنچایا گیا۔فسادات کے دوران ہونے والے مظالم کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ‘بظاہر احتجاج کو ختم کرنے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے ‘سی اے اے’ کے حامی مظاہرین نے بڑے پیمانے پر کشیدگی پھیلا دی’۔کمیشن نے کہا کہ پولیس نے مسلمانوں پر کشیدگی کا الزام دھرا حالانکہ وہ خود اس کا بدترین شکار ہوئے تھے۔

خیال رہے کہ دہلی فسادات میں کم از کم 53 افراد کو قتل کیا گیا تھا جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی جبکہ 200 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔متنازع قانون کے خلاف مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا تھا اور ان کا مؤقف تھا کہ مسلمانوں کو ان کی علاقوں سے بے دخل کرنے کی یہ سوچی سمجھی کوشش ہے۔

دہلی فسادات پرایمنسٹی انٹر نیشنل نے بھارتی پولیس کے کردار پر سوالات اٹھا دیے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پولیس نے فسادات کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں اور مشتعل ہندو گروہوں کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان ہوا جوکہ ان فسادات کا نشانہ تھے، پولیس نے فسادات کے دوران انسانی حقوق کے کارکنوں کو گرفتار کیا جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کو بھارتی مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانے پر کویت کا شکریہ ادا کرنا مہنگا پڑ گیا

گجرات کا "قصائی” مودی دہلی میں مسلمانوں پر حملے کا ذمہ دار ،بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھنے لگیں

دہلی میں پولیس بھی ہندوانتہا پسندوں کی ساتھی، زخمی تڑپتے رہے، پولیس نے ایمبولینس نہ آنے دی

دہلی جل رہا تھا ،کیجریوال سو رہا تھا، مودی سن لے،ظلم و تشدد ہمیں نہیں ہٹا سکتا، شاہین باغ سے خواتین کا اعلان

دہلی میں ظلم کی انتہا، درندوں نے 19 سالہ نوجوان کے سر میں ڈرل مشین سے سوراخ کر دیا

دہلی تشدد ، خاموشی پرطلبا نے کیا کیجریوال کے گھر کا گھیراؤ، پولیس تشدد ،طلبا گرفتار

امریکا سمیت متعدد ممالک کی دہلی بارے سیکورٹی ایڈوائیزری جاری

دہلی فسادات، 42 سالہ معذور پر بھی مسجد میں کیا گیا بہیمانہ تشدد

دہلی فسادات کا ذمہ دار کون؟ جمعیت علماء ہند نے کی نشاندہی

دہلی فسادات اور 2002 کے گجرات فسادات میں گہری مماثلت،ہندوؤں کی دکانیں ،گھر کیوں محفوظ رہے؟ سوال اٹھ گئے

دہلی فسادات، کوریج کرنیوالے صحافیوں کی شناخت کیلیے اتروائی گئی انکی پینٹ

دہلی، اجیت دوول کا دورہ مسلمانوں کو مہنگا پڑا، ایک اور نوجوان کو مار دیا گیا

دہلی فسادات میں امت شاہ کی پرائیویٹ آرمی ملوث،یہ ہندوآبادی پر دھبہ ہیں، سوشل ایکٹوسٹ جاسمین

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ نفرت انگیز تقاریر کرنے والے ہندو رہنمائوں کے خلاف پولیس کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اس رپورٹ کی روشنی میں آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ مساجد کی بھی بڑے پیمانے پر بے حرمتی کی گئی تھی۔۔یاد رہے کہ قبل ازیں امریکی اخبار ’’ نیویارک ٹائمز‘‘ نے بھی بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے حالیہ مسلم کش فسادات سے متعلق اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ فسادات کے دوران پولیس نے بھی دانستہ طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔

 

Leave a reply