باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق رواں برس کے آغاز میں دہلی میں ہونے والے فسادات میں مسلمانوں کو ابھی تک معاوضہ نہیں دیا گیا، 33 ایسے افراد کی نشاندہی ہوئی ہے جن کا فسادات میں لاکھوں کا نقصان ہوا لیکن انکو کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا،32 افراد کو معمولی معاوضہ دے کر جان چھڑا لی گئی
دہلی فسادات کے متاثرین کی امداد کے لئے بنائی گئی کمیٹی میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ کمیٹی کی لاپرواہی کی وجہ سے متاثرین معاوضہ سے محروم ہیں،کمیٹی کے چیئرمین امانت اللہ خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں فساد متاثرین کی ایک ایسی لسٹ سامنے آئی ہے ، جس میں 65 افراد کے نام شامل ہیں ، جن کو معاوضہ سے محروم رکھنے کی بالواسطہ یا بلاواسطہ کوشش کی گئی ۔ اس فہرست میں 33 افراد ایسے ہیں جن کو لاکھوں کا نقصان کے باوجود کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا ۔ اسی طرح بتیس افراد ایسے ہیں ، جن کو معمولی معاوضہ دے کر پیچھا چھڑا لیا گیا ۔
آج کمیٹی نے سروے کرنے والے افسران کو طلب کیا ہے ، جن کے ذریعہ سے سے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا تھا ، کیونکہ کمیٹی کے ممبر اور مصطفی آباد کے رکن اسمبلی حاجی یونس نے ازسر نو سروے کروا کر مذید ثبوت جمع کئے تھے ۔
امانت اللہ خان کا کہنا ہے کہ ہمارا مقصد متاثرین تک انصاف کی رسائی اور انھیں ان کا حق دلاناہے ۔ دہلی وقف بورڈ میٹنگ کے دوران چیئرمین امانت اللہ خان نے دہلی وقف بورڈ کے سیکشن افسر حافظ محفوظ محمد کو دہلی پولیس سے فسادات میں درج کی گئی ایف آئی آر کی کاپیاں لینے کے لئےعدالت میں مفاد عامہ کی درخواست دائر کرنے کی ہدایت دی ۔ کیونکہ ابھی تک کمیٹی کو درج مقدمات کی کاپیاں فراہم نہیں کی گئیں،فسادات کے بعد 754 مقدمات درج کئے گئے تھے
کمیٹی کے چیئرمین امانت اللہ خان نے پرنسپل سکریٹری برائے امور داخلہ سے دہلی فسادات میں ملوث ان ملزمان کی فہرست بھی طلب کی جن پر یو اے پی اے قانون کے تحت کارروائی کی گئی ہے ۔ امانت اللہ خان نے پرنسپل ہوم سکریٹری کو ہدایت دی کہ کمیٹی کے سامنے ان ملزموں کی فہرست پیش کی جائے ، جن کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔
دہلی فسادات میں کم از کم 50 سے زائد مسلمان جان کی بازی ہا ر گئے تھے، مسلمانوں کے گھروں، دکانوں کو جلا دیا گیا تھا انکی کروڑوں کی املاک تباہ ہو گئی تھیں تا ہم اب چارج شیٹ میں مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا ہے،چارج شیٹ میں جن لوگوں کے نام شامل کئے گئے ہیں ان میں عام آدمی پارٹی کے معطل لیڈر طاہر حسین اور کئی طلبہ کے نام شامل ہیں۔
پولیس نے عدالت کو بتایا کہ سیلم پور اور ظفرآباد میں فساد برپا کرنے کیلئے دو واٹس ایپ گروپس کا استعمال کیا گیا۔ تائید کرنے والوں نے درمیانی درجہ کے قائدین کو استعمال کرتے ہوئے پولیس کو نشانہ بنایا۔ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ اس احتجاج میں حصہ لینے کیلئے 20 کیلو میٹر پیدل چلے۔ شروع سے ہی یہ کوئی جمہوری احتجاج نہیں تھا۔ احتجاج کے پہلے دن سے ہی تشدد کیلئے بھڑکایا جارہا تھا۔ احتجاجیوں نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑے کرنے کی مہم چلاتے ہوئے غیرجمہوری طریقہ سے احتجاج کیا جس کے نتیجہ میں تشدد کیلئے بھڑکایا گیا۔
دہلی پولیس نے چارج شیٹ میں مزید الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مرکز کے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) پر فرقہ وارانہ فسادات کروائے گئے۔ دہلی میں دو گروپوں سی اے اے کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ اس احتجاج کے دوران امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ بھی بھارت میں موجود تھے جہاں ٹرمپ اور مودی کی ملاقات ہورہی تھی۔ دہلی شہر کے کئی حصوں میں بڑے پیمانے پر جھڑپیں دیکھی گئیں۔ تشدد، آتشزنی اور سنگباری کی وجہ سے 53 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے اور سینکڑوں گھر نذرآتش کئے گئے۔
دہلی تشدد کی تحقیقات کے لئے اسپیشل سیل نے 6 مارچ کو ایف آئی آر درج کی تھی۔ اسی کے تحت یہ چارج شیٹ داخل کی گئی ہے۔ اس واقعہ کی تحقیقات کے سبب اسپیشل سیل 20 افراد کو گرفتار کرچکی ہے، جن میں شرجیل امام، دیوانگنا، صفورا زرگر، نتاشا، عشرت جہاں، شفاء الرحمن، فاطمہ، میران حیدر شامل ہیں۔
قبل ازیں بھارت کے اقلیتی حقوق کمیشن نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ دارالحکومت نئی دہلی میں رواں برس کے اوائل میں متنازع شہریت قانون (سی اے اے) کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران مسلمانوں کے قتل و غارت اور املاک کو نقصان پہنچانے میں قانون کے حامیوں کے ساتھ پولیس بھی شامل رہی۔
خبر ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق دہلی کے اقلیتی کمیشن (ڈی ایم سی) نے اوپن رپورٹ جاری کی ہے، جس میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے منظم مظالم کو بیان کیا گیا ہے۔ڈی ایم سی نے کہا کہ رواں برس فروری میں متنازع شہریت قانون کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کے موقع پر شمال مشرقی دہلی میں فسادات کے دوران مسلمانوں کے گھر، دکانیں اور گاڑیوں کو ہدف بنایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 11 مساجد، 5 مدارس، مسلمانوں کی ایک درگاہ اور قبرستان پر حملہ کیا گیا اور انہیں نقصان پہنچایا گیا۔فسادات کے دوران ہونے والے مظالم کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ‘بظاہر احتجاج کو ختم کرنے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے ‘سی اے اے’ کے حامی مظاہرین نے بڑے پیمانے پر کشیدگی پھیلا دی’۔کمیشن نے کہا کہ پولیس نے مسلمانوں پر کشیدگی کا الزام دھرا حالانکہ وہ خود اس کا بدترین شکار ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ دہلی فسادات میں کم از کم 53 افراد کو قتل کیا گیا تھا جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی جبکہ 200 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔متنازع قانون کے خلاف مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا تھا اور ان کا مؤقف تھا کہ مسلمانوں کو ان کی علاقوں سے بے دخل کرنے کی یہ سوچی سمجھی کوشش ہے۔
دہلی فسادات پرایمنسٹی انٹر نیشنل نے بھارتی پولیس کے کردار پر سوالات اٹھا دیے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پولیس نے فسادات کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں اور مشتعل ہندو گروہوں کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان ہوا جوکہ ان فسادات کا نشانہ تھے، پولیس نے فسادات کے دوران انسانی حقوق کے کارکنوں کو گرفتار کیا جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
گجرات کا "قصائی” مودی دہلی میں مسلمانوں پر حملے کا ذمہ دار ،بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھنے لگیں
دہلی میں پولیس بھی ہندوانتہا پسندوں کی ساتھی، زخمی تڑپتے رہے، پولیس نے ایمبولینس نہ آنے دی
دہلی میں ظلم کی انتہا، درندوں نے 19 سالہ نوجوان کے سر میں ڈرل مشین سے سوراخ کر دیا
دہلی تشدد ، خاموشی پرطلبا نے کیا کیجریوال کے گھر کا گھیراؤ، پولیس تشدد ،طلبا گرفتار
امریکا سمیت متعدد ممالک کی دہلی بارے سیکورٹی ایڈوائیزری جاری
دہلی فسادات، 42 سالہ معذور پر بھی مسجد میں کیا گیا بہیمانہ تشدد
دہلی فسادات کا ذمہ دار کون؟ جمعیت علماء ہند نے کی نشاندہی
دہلی فسادات، کوریج کرنیوالے صحافیوں کی شناخت کیلیے اتروائی گئی انکی پینٹ
دہلی، اجیت دوول کا دورہ مسلمانوں کو مہنگا پڑا، ایک اور نوجوان کو مار دیا گیا
دہلی فسادات میں امت شاہ کی پرائیویٹ آرمی ملوث،یہ ہندوآبادی پر دھبہ ہیں، سوشل ایکٹوسٹ جاسمین
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ نفرت انگیز تقاریر کرنے والے ہندو رہنمائوں کے خلاف پولیس کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اس رپورٹ کی روشنی میں آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ مساجد کی بھی بڑے پیمانے پر بے حرمتی کی گئی تھی۔۔یاد رہے کہ قبل ازیں امریکی اخبار ’’ نیویارک ٹائمز‘‘ نے بھی بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے حالیہ مسلم کش فسادات سے متعلق اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ فسادات کے دوران پولیس نے بھی دانستہ طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔








