کہیں پر کوئی درخت نہیں لگا،سپریم کورٹ نے بلین ٹری سونامی کا تمام ریکارڈ طلب کر لیا

supreme court

کہیں پر کوئی درخت نہیں لگا،سپریم کورٹ نے بلین ٹری سونامی کا تمام ریکارڈ طلب کر لیا

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں دریاوَں اور نہروں کے کنارے درخت لگانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی

سپریم کورٹ نے بلین ٹری سونامی کا تمام ریکارڈ طلب کر لیا ،عدالت نے سیکریٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی کو طلب کر لیا،چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی کو بلائیں سارا ریکارڈ لیکر آئے،کہیں پر کوئی درخت نہیں لگایا گیا،بلین ٹری سونامی پروگرام کو کون چلا رہا ہے؟

ڈی جی ماحولیات نے کہا کہ بلین ٹری سونامی پروگرام وزارت موسمیاتی تبدیلی کے پاس ہے،چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 10ارب درخت سونامی کے بارے میں ہمیں بتایا جائے،

عدالت نے سندھ حکومت کو جھیلوں اور شاہراوں کے اطراف میں بھی درخت لگانے کا حکم دے دیا،سندھ حکومت کیطرف سے رپورٹ نہ آنے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا،عدالت نے کہا کہ توہین عدالت کا نوٹس ملا تو ساری جمع پونجی ختم ہوجائے گی ،سندھ کے افسران جیل بھی جائیں گے اور نوکری سے بھی،عدالتی حکم عدولی پرسندھ کےافسران کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرینگے،

ہاؤسنگ سوسائٹیز میں لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے، سپریم کورٹ نے دی حکومت کو مہلت

فلمسٹار لکی علی کا فراڈ ہاوسنگ سوسائٹیوں سے عوام کو چونا لگانے کا اعتراف،نیب نے کی ریکارڈ ریکوری

وفاقی انٹیلی جنس بیورو آئی بی کے افسران کی جانب سے اسلام آباد میں پراپرٹی کا کام شروع کئے جانے کا انکشاف

وفاقی انٹیلی جنس بیورو آئی بی کے افسران کی جانب سے ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام پر اربوں کا فراڈ

آئی بی کی ہاوسنگ اسکیم کے فراڈ پر پوسٹ لکھنے پر صحافی کا 15 سالہ پرانا فیس بک اکاؤنٹ ہیک

آئی بی افسران کی ہاؤسنگ سکیم،دس سال پہلے پلاٹ خریدنے والوں کو قبضہ نہیں ملا، نیب کہاں ہے؟ عدنان عادل

ملک میں غیر قانونی ہاؤسنگ سکیموں کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں کشمیر ہائی وے اور ایکسپرس ہائی پر کوئی ڈھنگ کا درخت نہیں ،بغیر ترتیب کے بونے اور ٹیڑھے درخت لگے ہوئے، ایک ہی قسم کے درخت سڑکوں کے ساتھ لگانے چاہئیں،دنیا میں کتنے خوبصورت پودے سڑکوں کے کنارے لگے ہوئے ہیں،ہمارے ملک میں سڑکوں کے کنارے جنگل بنا دیا جاتا ہے،اسلام آباد میں پانچ لاکھ درخت کہاں لگائے ہیں؟ اسلام آباد انتظامیہ بڑی مغرور ہے،

اسلام آباد انتظامیہ کے حکام نے عدالت میں کہا کہ تمام تفصیلات عدالت میں جمع کرائیں گے،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے سارے درخت بنی گالہ میں ہی لگائے ہونگے، اسلام آباد میں درخت کٹ رہے،کشمیر ہائی وے پربے ترتیب درخت لگے ہیں ،درخت خوبصورتی کے بجائے بد صورتی پیدا کررہے ہیں، درخت قوم کی دولت اور اثاثہ ہیں،

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو کس قسم کا ہیلی کاپٹر چاہیے کہ آپ جنگلات کا دورہ کرسکیں؟ نتھیا گلی میں درخت کٹ رہےہیں اور پشاور میں تو موجود ہی نہیں،اسلام آباد سے کراچی تک جائیں، دریا کنارے کوئی جنگل نہیں، 25 ہزار میل کینال روڈ کے ایریا میں 3 لاکھ درخت کچھ بھی نہیں، سیکرٹری آبپاشی پنجاب نے عدالت میں کہا کہ کینال کے علاقے میں 3 لاکھ درخت لگائے ہیں، کینال اور ریور سائیڈ پر شیشم، کیکر اور برگد کے درخت لگائے،

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری صاحب کام نہیں کرینگے تو جیل بھی جائیں گے اور نوکری سے بھی،سیکرٹری آبپاشی نے کہا کہ پنجاب میں کینال کے25 ہزارمیل رقبےپردرخت لگائےہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کاغذوں میں آدھا پاکستان جنگل ہے،اصل میں جنگل کہیں نہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم کی عدم تعمیل پرآپ دونوں کیخلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی کریں گے،سیکرٹری آبپاشی اورسیکرٹری جنگلات دونوں کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیتے ہیں، آپ نے درخت لگانے بھی نہیں ہیں،

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت میں کہا کہ کوئٹہ شہر کے پہاڑوں پر درخت نہیں لگتے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کوئٹہ شہر کے پہاڑ چٹانیں ہیں؟ ماضی میں کبھی کوئٹہ شہر کے پہاڑوں پر درخت ہوا کرتے تھے، آپ نے بلوچستان میں درخت لگانے ہی نہیں،بلوچستان میں پہاڑوں کو مردار بنا کے چھوڑ دیا گیا،درخت ہر جگہ لگ سکتے ہیں اگر انکا خیال رکھا جائے،

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں لاکھوں درخت کاٹے جاتے ہیں،کمراٹ کا چکر لگایا وہاں لاکھوں درخت کاٹے جاتے ہیں ناران کاغان تو کچرا بن گیا ہے وہاں کوئی درخت نہیں ،معذرت کے ساتھ خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلات کا سارا عملہ چور ہے،نتھیا گلی ،مالم جبہ اور مری سمیت کہیں درخت نہیں،زندگی چیلنج کے بغیر کچھ نہیں،خیبر پختون خوا میں تفریح کیلئے پورے ملک سے لوگ جاتے ہیں،کے پی میں درختوں کا خیال کوئی نہیں رکھتا،

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سندھ سے آئے افسران کو کسی کو بھی ایک روپیہ ٹی اے ڈی اے نہیں ملے گا،سندھ سے آئے افسران کہتے ہیں چلو مری کی سیر ہوجائے گی،کہیں پر کوئی درخت نہیں لگایا گیا،سندھ کے سیکرٹری ایریگیشن اور ماحولیات کا عملہ اسلام آباد میں سیر کرنے آتا ہے، سندھ سے آئے افسران کو سارا خرچہ اپنی جیب سے کرنا ہوگا، رپورٹ جمع کراتے نہیں سیر کرنے آجاتے ہیں، جتناسرکاری خرچہ کرکےسندھ کےافسران آئے اتنے میں50 ہزار درخت لگ جاتے،سندھ واحد صوبہ ہے جس کے معاملات اور طرح چلتے ہیں،دو ماہ گزر گئے لیکن کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی،ہم نے آپ کا چہرہ دیکھنے کیلئے نہیں بلایا تھا، سیکرٹری جنگلات سندھ سمیت جوعدالت نہیں آئے ہیں سب کو توہین عدالت نوٹس دیتے ہیں،پرائمری اسکول کے بچوں کی طرح بغیر تیاری کے آجاتے ہیں، سیکرٹری جنگلات اور ایریگیشن سندھ کے لوگ جیل جائینگے اور نوکری سے بھی جائیں گے،توہین عدالت میں وکیل کو لاکھوں روپے دینا پڑیں گے، ساری جمع پونجی ختم ہوجائے گی

سیکرٹری جنگلات سندھ نے عدالت میں کہا کہ آج معافی دے دیں جلد رپورٹ جمع کرائیں گے،جس پر عدالت نے کہا کہ سندھ میں دریاؤں، نہروں، جھیلوں اور ہائی ویز کے ساتھ درخت لگائے جائیں،سپریم کورٹ نے سیکرٹری جنگلات اور ایریگیشن سے 2 ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی

بیچارے بلاول کو آگے کرکے شہباز شریف، مریم نے چپ کا روزہ رکھ لیا،زرتاج گل

خیال نہیں رکھ سکتے تو پنجروں میں قید کیوں، چڑیا گھر کے جانوروں کو پناہ گاہوں میں منتقل کر دیا جائے؟ عدالت

پاکستان ایک انتہائی غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے،زرتاج گل کے بیان پر وزیراعظم حیران

نوجوانوں کو گوگل پر سرچ کرنے کی بجائے کیا کرنا چاہئے؟ زرتاج گل نے دیا مشورہ

ماضی میں توجہ نہیں ملی،اب ہم یہ کام کریں گے، زرتاج گل کا حیرت انگیز دعویٰ

عمران خان مایوس کریں گے یا نہیں؟ زرتاج گل نے کیا حیرت انگیز دعویٰ

رنگ گورا کرنے کیلئے کاسمیٹکس کا استعمال کیسا ہے؟ زرتاج گل نے کیا اہم انکشاف

اسلام آباد میں پہلی دفعہ یہ "کام” ہو رہا ہے، زرتاج گل نے یہ کیا کہہ دیا؟

وزیر ماحولیات زرتاج گل اور اسکے شوہر نے دس لاکھ رشوت مانگی، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کا الزام

زرتاج گل پر حلقے میں عوام نے برسائے ٹماٹر، لگائے پی ٹی آئی مردہ باد کے نعرے

آپ کہتے ہیں بلین ٹری لگائے لیکن ہمیں کوئی درخت نظر نہیں آیا،چیف جسٹس گلزار احمد کے ریمارکس

Comments are closed.