سندھ حکومت نے پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر عام تعطیل کا اعلان کردیا۔
باغی ٹی وی : تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت نے 5 فروری کو عام تعطیل کا اعلان کردیا جس کا نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا ہے نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ یوم یکجہتی کمشیر کی مناسبت سے سندھ میں عام تعطیل ہوگی اور تمام سرکاری و نجی دفاتر، تعلیمی ادارے اور بازار بند رہیں گے۔
اس نظام کا حصہ تو آپ بھی ہیں صاحب،ازقلم :غنی محمود قصوری
واضح رہے کہ وفاقی حکومت اس سے پہلے ہی پانچ فروری کو عام تعطیل کا اعلان کرچکی ہے، 5 فروری ہر سال وفاقی حکومت کے گزیٹڈ ہالیڈے کی فہرست میں شامل ہوتا ہے-
خیال رہے کہ یہ دن منانے کا سلسلہ گذشتہ 30 سال سے بلا تعطل جاری ہے جس میں پاکستان اور دنیا کے کئی ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں احتجاجی جلسے منعقد کرتی ہیں اور سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے شیخ عبداللہ اور اندرا گاندھی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے وقت 1975 میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 28 فروری کوکشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن منانے کا اعلان کیا، تاہم کئی سالوں بعد یہ بدل کر 5 فروری ہو گیا بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ کیا حالات تھے جو 5 فروری 1990 کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا باعث بنے۔
5 فروری یوم یکجہتی کشمیر منانے کا مقصد!!! تحریر: غنی محمود قصوری
اس دن کو منانے کا آغاز تقسیم کشمیر سے قبل ہی 1932 میں متحدہ پنجاب سے ہو گیا تھا تاہم یہ سلسلہ ٹوٹتا اور جڑتا رہا پاکستان بننے کے بعد بھی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کیا جاتا رہا تاہم اس کے لیے کوئی خاص دن مقرر نہیں تھا اور یہ سلسلہ بھی مسلسل نہیں رہا۔
شیخ عبداللہ اور اندرا گاندھی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے وقت 1975 میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 28 فروری کوکشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن منانے کا اعلان کیااس دور کی میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ احتجاج اس قدر سخت تھا کہ پورا پاکستان بند ہو گیا اور لوگوں نے اپنے مویشیوں کو پانی تک نہیں پلایا۔ یہ دن منانے کی تجویز وزیر اعظم بھٹو کو دینے والوں میں جماعت اسلامی کی سربراہ قاضی حسین احمد کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اس وقت کے صدر سردار محمد ابراہیم خان پیش پیش تھے۔
کشمیریوں سے یکجہتی، وزیراعظم کی کال پر قوم لبیک کہنے کو تیار
شمیر پر دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے آ سکتی ہیں،وزیراعظم عمران خان کا اقوام متحدہ میں خطاب
وزیراعظم نے مظلوموں کا مقدمہ دنیا کے سب سے بڑے فورم پررکھ دیا،فردوس عاشق اعوان
یوم یکجہتی کشمیر، پاک فوج نے جاری کیا کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے ملی نغمہ "کشمیر ہوں میں”
یوم یکجہتی کشمیر پر علی امین گنڈا پور نے کی قوم سے بڑی اپیل، کیا کہا؟
مقبوضہ کشمیر،کشمیری سڑکوں پر،عمران خان زندہ باد کے نعرے، کہا اللہ کے بعدعمران خان پر بھروسہ
کشمیری اکیلے نہیں،ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں، غیر متزلزل حمایت جاری رہے گی،آرمی چیف
مسلح افواج کشمیریوں کے ساتھ ہیں، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا پیغام
خون کے آخری قطرے تک کشمیریوں کے ساتھ، نیول چیف کا دبنگ اعلان
یوم یکجہتی کشمیر، سربراہ پاک فضائیہ نے دیا کشمیریوں کو پیغام
تاہم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے ایک دن مخصوص کرنے کا مطالبہ 1990 میں قاضی حسین نے میاں نواز شریف کی مشاورت سے کیا اور اس کی فوری تائید وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی کی 29 تا 31 دسمبر 1988 جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا اور ہندوستان کے وزیر اعظم راجیو گاندھی اس اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے۔
ملک میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور محترمہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم تھی۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ سارک اجلاس میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات نہ کی جائے اور یہ مشورہ مان بھی لیا گیا۔ نتیجتاً نہ صرف سارک اجلاس کے ایجنڈے سے کشمیر غائب ہو گیا بلکہ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی عمارت کے ساتھ ہی واقع پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکے ملکیتی ’آزاد جموں وکشمیر ہاوس‘کا سائن بورڈ بھی اتار لیا گیا۔ جب تک اجلاس کے شرکا اور ان کے ساتھ آنے والے وفود اسلام آباد میں موجود رہے، یہ سائن بورڈ بھی غائب رہا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے صرف یہ کہا کہ ’اس معاملے میں ہمارا اپنا موقف ہے۔‘ اس سے آگے نہ تو وزیر اعظم نے پاکستانی موقف کی وضاحت کی اور نہ ہی وزات خارجہ نے اس معاملے پر ایک لفظ بولا میاں نواز شریف اس وقت اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے جماعت اسلامی اس اتحاد کا حصہ تھی اور اس کے سربراہ قاضی حسین احمد تھے اسلامی جمہوری اتحاد قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں تھا میاں نواز شریف اور قاضی حسین احمد نے اس معاملے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔
یکجہتی کشمیر، قومی اسمبلی میں کشمیر کا پرچم لہرا دیا گیا،علی امین گنڈا پور نے کیا اہم اعلان
یوم یکجہتی کشمیر،بھارتی ناجائز تسلط کے خلاف ہو گا دنیا بھر میں احتجاج، سفیرکشمیر جائیں گے مظفر آباد
یوم یکجہتی کشمیر،وزیرخارجہ نے کیا عالمی دنیا سے بڑا مطالبہ
مودی مسلمانوں کا قاتل، کشمیر حق خودارادیت کے منتظر ہیں، صدر مملکت
یوم یکجہتی کشمیرپرتحریک آزادی بارے مفتیان نے کیا فتویٰ دیا؟ لیاقت بلوچ نے بتا دیا
یکجہتی کشمیر،جماعت اسلامی کی ہوں گی ملک بھر میں ریلیاں، شیڈول جاری
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح تحریک اپنے عروج کی طرف رواں تھی اور بھارت کی افواج اس تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا کھل کر استعمال کر رہی تھیں۔ نتیجتاً بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری نوجوانوں کی ہلاکتیں روز کا معمول بن گئیں۔ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان عسکری تنظیموں کاحصہ بن گئے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد میں لوگ اسلحہ اور عسکری تربیت حاصل کرنے کے لیے لائن آف کنٹرول عبور کر کے پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آنے لگے۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میں وہ خاندان بھی شامل تھے جو لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں کے علاوہ کشمیر کے کئی شورش زدہ علاقوں سے ہجرت کر رہے تھے۔
عسکریت پسندوں کی بھارتی فوج کے ساتھ چھڑپوں کے نتیجے میں فوج کی جانب سے آبادیوں پر ہونے والے کریک ڈاؤن میں خواتین اور بچوں سمیت ہر عمر کے لوگوں کی ہلاکت اور خواتین کے ریپ کی اطلاعات بین الاقومی میڈیا میں آنا شروع ہوئیں اور پاکستان میں سیاسی و مذہبی جماعتوں میں بے چینی پیدا ہونا شروع ہوئی۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف کی مشاورت سے کشمیر میں مسلح عسکری تحریک کی حمایت کا اعلان کیا اور 5 فروری 1990 کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کشمیر کے معاملے پر پہلے ہی اپوزیشن کے نشانے پر تھی لہٰذا وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بغیر تاخیر اس اعلان کی تائید کی اور آنے والے سالوں میں 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کے باقاعدہ سلسلہ شروع ہو گیا۔
کشمیر متنازعہ علاقہ، بھارت فوج بھیج سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ سراج الحق
تمام پارلیمانی فورموں پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا،سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر
ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے، یوم یکجہتی کشمیر پر وزیر داخلہ کا پیغام
مودی پاگل،میرا ایمان ہے کشمیر آزاد ہو گا، وزیراعظم نے کیا مظفرآباد میں اہم اعلان
تاہم اس دن کو سرکاری طور پر منانے کے آغاز 2004 میں ہوا جب اس وقت کے وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی اور وزیر امور کشمیر و گلگلت بلتستان آفتاب احمد خان شیرپاو نے یہ دن سرکاری طور پر منانے کے اعلان کیا۔ پانچ فروری 2004 کو وزیر اعظم جمالی نے مظفرآباد میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور جموں وکشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا-