26 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی

جسٹس امین الدین خان خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی،درخواست گزاروں نےآئینی ترمیم کے خلاف فل کورٹ بینچ بنانے کی استدعا کی،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جوڈیشل کمشن نے جن ججز کو آئینی بنچ کے لیے نامزد کیا وہ سب اس بینچ کا حصہ ہیں۔ججز کی نامزدگی جوڈیشل کمشن کرتا ہے جبکہ کیسز کی فکسشین 3 رکنی کمیٹی کرتی ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ جسٹس آمین الدین خان ہیں، کمیٹی میں جسٹس محمد علی مظہر اور میں شامل ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وکلا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کے معاملے پر آپ خود کنفیوز ہیں،آپ اس بنچ کو ہی فل کورٹ سمجھیں۔ وکلا نے کہا کہ سپریم کورٹ میں موجود تمام ججز پر فل کورٹ تشکیل دیا جاۓ۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں آئینی معاملہ صرف آئینی بینچ ہی سنے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئینی بنچ میں موجود تمام ججز پر فل کورٹ ہی بنایا ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فُل کورٹ کا معاملہ چیف جسٹس کے پاس ہی جاسکتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لگتا ہے آپ پہلے دن سے ہی لڑنے کے موڈ میں ہیں،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہم کسی سے لڑنا نہیں چاہیے،جسٹس امین الدین نے کہا کہ اگر کوئی فریق دلائل دینے کو تیار نہیں تو عدالت حکم جاری کرے گی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ آپ ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہیں؟ جو اس بینچ کے سامنے بحث نہیں کرنا چاہتا وہ پیچھے بیٹھ جائے،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فُل کورٹ تشکیل دینے پر پابندی تو کوئی نہیں ہے،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم اختیارات کی تقسیم کے اصول کے خلاف ہے،وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 26ویں ترمیم کی منظوری کے وقت ایوان نامکمل تھا،جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے لیے کل ممبران پر ووٹنگ ہوئی یا دستیاب ممبران پر،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم پر دستیاب ممبران نے ووٹنگ کی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ دستیاب ممبران ٹوٹل کیا ایوان کے دو تہائی پر پورا اترتا ہے،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ گنتی حکومت نے پوری ہی کر لی تھی، یہ مسئلہ نہیں اٹھا رہے،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا ایوان میں تمام صوبوں کی نمائندگی مکمل تھی،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ خیبر پختون خوا کی سینیٹ میں نمائندگی مکمل نہیں، وہاں سینیٹ انتخابات ابھی رہتے تھے،وکیل صلاح الدین نے کہا کہ اختر مینگل کی درخواست میں ترمیم کے حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے، ارکان اسمبلی ووٹ دینے میں کتنے آزاد تھے، اسے بھی مدِ نظر رکھا جائے،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا،وکیل صلاح الدین نے کہا کہ درخواست میں ایک نکتہ مخصوص نشستوں کا بھی اٹھایا گیا ہے، ایوان مکمل ہی نہیں تھا تو ترمیم کیسے کر سکتا تھا،وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ عوام کے حقیقی نمائندے ہی آئینی ترمیم کا اختیار رکھتے ہیں۔

آپ چاہتے ہیں انتخابات کیسز کے فیصلوں کا انتظار کریں، پھر آئینی ترمیم کیس سنیں؟جسٹس محمد علی مظہر
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں انتخابات کیسز کے فیصلوں کا انتظار کریں، پھر آئینی ترمیم کیس سنیں؟ اس طرح تو آئینی ترمیم کا کیس کافی عرصہ لٹکا رہے گا۔سپریم کورٹ نے 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق کیس کی سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی

13جنوری کو عمران کی بیٹوں سے بات کروائی،جیل حکام کا عدالت میں جواب

ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کے خلاف شوکاز نوٹس کی کارروائی ختم

Shares: