ٹھٹھہ (باغی ٹی وی، بلاول سموں) محکمہ جنگلات اور پولیس کی مبینہ ملی بھگت نے ٹھٹھہ کے ساحلی علاقے کے باسیوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق رات گئے گوٹھ حاجی محمد صدیق جت فقیرانی میں پولیس کی پانچ گاڑیوں نے اچانک چھاپہ مار کارروائی کی، جس کی قیادت ساکرو، گاہو اور بگھاڻ تھانوں کے تین ایس ایچ اوز کر رہے تھے۔

عینی شاہدین کے مطابق پولیس اہلکاروں نے چادر و چاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے پانچ اونٹ چرانے والے دیہاتیوں کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ گاؤں کے معزز شہری محمد جان فقیرانی جت کو بھی زبردستی اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، تاہم گاؤں کے مکینوں کی مزاحمت پر پولیس کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔

مقامی ذرائع کے مطابق پولیس اہلکاروں نے گرفتار دیہاتیوں کی رہائی کے بدلے پانچ لاکھ روپے رشوت کا مطالبہ کیا۔ دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ ان کا “جرم” صرف یہ ہے کہ ان کے اونٹ تمر (تمر کے درختوں) کے پتے کھاتے ہیں۔ ان کے مطابق صدیوں سے ڈیلٹا کے علاقے میں اونٹ لوگوں کے نقل و حمل کا بنیادی ذریعہ ہیں اور تمر ان کی قدرتی خوراک ہے۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات نے تمر کے جنگلات اور نرسریاں لگانے کے منصوبوں کے لیے ورلڈ بینک سمیت مختلف بین الاقوامی اداروں سے کروڑوں روپے کی گرانٹس حاصل کیں، مگر ان منصوبوں پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ محکمہ جنگلات کے افسران نے فنڈز خرد برد کر لیے اور جب یہ بے ضابطگیاں سامنے آنے لگیں تو بدعنوانی چھپانے کے لیے پولیس کے ساتھ مل کر ایک جعلی کارروائی کا ڈرامہ رچایا گیا۔

مزید یہ کہ محکمہ جنگلات کے اہلکار مقامی لوگوں پر الزام لگا رہے ہیں کہ ان کے اونٹ لگائے گئے تمر کے درخت کھا گئے ہیں، تاہم دیہاتیوں کا مؤقف ہے کہ یہ الزامات من گھڑت ہیں کیونکہ ایسے درخت عملاً لگائے ہی نہیں گئے۔

گاؤں کے رہائشیوں نے انکشاف کیا کہ محکمے اور پولیس نے جھوٹے مقدمات درج کر کے انہیں ہراساں کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ اصل مالی بے ضابطگیوں سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ مقامی آبادی نے وزیراعلیٰ سندھ، وزیر جنگلات، آئی جی سندھ اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ محکمہ جنگلات اور پولیس کی ملی بھگت کا فوری نوٹس لے کر بے گناہ دیہاتیوں کو رہا کیا جائے اور کرپشن میں ملوث افسران کے خلاف شفاف انکوائری کر کے سخت کارروائی کی جائے۔

Shares: