افغان مہاجرین،پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
پا کستان نے 1979 ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد سے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی ہے۔ یہ ایک انسانی ہمدردی پر مبنی فیصلہ تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات پاکستانی معاشرے پر نمایاں ہوتے گئے اور انسانی ہمدردی میں کیا گیا فیصلہ پاکستانیوں کیلئے گلے کی ہڈی بن گیا ،جس سے جان ہی نہیں چھوٹ رہی ، تقریبا َچار دہائیوں کے بعد یہ مہاجرین ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکے ہیں، جس کے سماجی، اقتصادی اور سیکیورٹی اثرات نے پاکستانیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔

افغان مہاجرین کو پاکستان نے ہمیشہ کھلے دل سے قبول کیا، ان کے لیے کیمپ قائم کیے گئے، روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے اور انہیں تعلیم و صحت کی سہولیات دی گئیں۔ لیکن بدلے میں ان افغانیوں نے پاکستان کو منشیات ،ناجائزاسلحہ ،چوری ،ڈکیتی اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے تحفے دئے ، جن کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں ،بیشترپاکستانیوں کی رائے ہے کہ افغان مہاجرین ملکی وسائل پر بوجھ بن چکے ہیں۔پاکستان کی معیشت پہلے ہی کئی چیلنجز سے دوچار ہے۔

افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اب بھی پاکستان میں غیر رجسٹرڈ ہے، جو مقامی معیشت پربوجھ ہیں۔ ملازمتوں کے مواقع، صحت اور تعلیم کے وسائل پر ان کا بوجھ پاکستانی عوام کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ایک اور سنگین مسئلہ سیکیورٹی کا ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق بہت سے افغان مہاجرین دہشت گردی اور جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ کئی بار ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ افغان مہاجرین کیمپ انتہا پسند عناصر کی پناہ گاہ بن چکے ہیں۔

30 جنوری 2025 کو افغان صوبہ بادغیس کے نائب گورنر مولوی غلام محمد کا بیٹا بدرالدین عرف یوسف ڈیرہ اسماعیل خان کے کلاچی میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں مارے جانے والے تین دہشت گردوں میں شامل تھا، جو فتنہ الخوارج (FAK) کے دہشت گردوں کے ساتھ ہلاک ہوا۔ یوسف کی کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ساتھ ہلاکت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ افغانستان کھلم کھلا پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کر رہا ہے، جہاں دہشت گرد گروہوں کو ٹریننگ، اسلحہ اور محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ افغانستان کی جانب سے دہشت گردوں کی مسلسل پشت پناہی پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے، اور کابل حکومت کا یہ رویہ دراصل پاکستان کے خلاف ایک کھلی جنگ کے مترادف ہے۔ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے باہمی روابط اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں.

اب افغان مہاجرین پاکستان میں سماجی تناؤ اور جرائم کی شرح میں اضافے کی علامت بن چکے ہیں ، جو مقامی آبادی کے لیے تشویشناک ہے۔پاکستان کئی دہائیوں سے افغان حکومت اور عالمی برادری سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ مہاجرین کی واپسی کے لیے مؤثر اقدامات کرے مگر اس سلسلے میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ پاکستان کا مئوقف واضح ہے کہ مہاجرین کو باعزت طریقے سے ان کے وطن واپس بھیجا جائے تاکہ ملکی استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان سخت فیصلے کرے اور تمام افغان مہاجرین کو ملک بدر کرے۔ اقوام متحدہ کی ہدایات اور بین الاقوامی مہاجر قوانین کو پس پشت ڈال کر ہمیں اپنے قومی مفاد کو ترجیح دیناہوگی۔ جو ممالک ان افغان مہاجرین سے ہمدردی رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ خود ان دہشت گردوں کو اپنے ممالک میں جگہ دیں۔

ہمیں اب ان ظالمان دہشت گردوں اور فتنہ الخوارج کے ایجنٹوں سے ہر حال میں چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ بہت ہو گئی مہمان نوازی، اب یہ ہمارے گھر میں بیٹھ کر ہمارے بچوں، بزرگوں، خواتین اور ہماری افواج پر حملوں میں دہشت گردوں کی معاونت کر رہے ہیں۔ پاکستان میں امن کے قیام اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے افغان دہشت گردوں سے نجات حاصل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

دوسری طرف افغان مہاجرین نے ملک کے اندر موجود مافیاز کے ساتھ ملی بھگت کرکے بھاری رقوم کے عوض پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کر رکھے ہیں۔ یہ ایک نہایت خطرناک معاملہ ہے جو ملکی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ پاکستانی حکام کو چاہیے کہ وہ نہ صرف ان افغانوں کے خلاف سخت کارروائی کریں بلکہ نادرا میں موجود ان کے سہولت کاروں کو بھی بے نقاب کریں جو چند روپوں کی خاطر ملکی سلامتی کو داؤ پر لگا کر غیر ملکیوں کو پاکستانی شہری ہونے کے جعلی دستاویزات فراہم کر رہے ہیں۔ ایسے عناصر کے خلاف فوری اور سخت ترین کارروائی ناگزیر ہے تاکہ ملک کے اندر کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کو روکا جا سکے۔

پاکستان کی بقاء استحکام اور روشن مستقبل کے لیے اب فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کا وقت آ چکا ہے۔ ہمیں مزید تاخیر کے بغیر اپنی سرزمین کو غیر قانونی مہاجرین اور ان کے سہولت کاروں سے پاک کرنا ہوگا۔ یہ مسئلہ صرف قانون و انتظام کا نہیں بلکہ پاکستان کی خودمختاری اور قومی سلامتی کا ہے۔ اب اگر ہم نے سنجیدہ اور سخت فیصلے نہ کیے تو ہمارا ملک مسلسل عدم استحکام، دہشت گردی اور معاشی مشکلات کا شکار رہے گا۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ، خودمختار اور مستحکم پاکستان چھوڑنا ہوگا اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم بے خوف ہو کر قومی مفاد میں عملی اقدامات کریں۔

Shares: