بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ،تحریر: محمد مستنصر
ہر سال پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماہ اکتوبر بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 1990 کے عشرے میں دنیا بھر میں پہلی مرتبہ بریسٹ کینسر (چھاتی کے سرطان) سے متعلق عوامی شعور اجاگر کرنے کے لئے پنک ربن مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔ بریسٹ کینسر(چھاتی کا سرطان) دنیا بھر کی خواتین میں پایا جانے والا سب سے عام کینسر ہے، ساتھ ہی دنیا بھر کی خواتین کی شرح اموات کے بڑھنے کا سب سے بڑا سبب بھی بریسٹ کینسر کو ہی مانا جاتا ہے، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک ریسرچ کے مطابق بریسٹ کینسر دنیا بھر میں تمام قسم کے کینسرز کا 10 فیصد ہے جو کہ تشخیص سے ثابت ہوتا ہے۔
مرض کی پیچیدگیوں اور اس حوالے خواتین کو پیش آنے والی مشکلات کے پیش نظر صدر مملکت پاکستان عارف علوی صاحب اور خاتون اول بیگم ثمینہ علوی بھی بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے اور مرض کے پھیلائو کو روکنے کے حوالے سے اقدامات کرنے میں پیش پیش ہیں۔ اسی حوالے سے ایوان صدر اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت عارف علوی صاحب نے کہا کہ چھاتی کے کینسر کی جلد تشخیص ہی ملک میں اس مہلک مرض کا شکار ہونے والی سالانہ 40 ہزار خواتین کی زندگیاں بچانے کا واحد راستہ ہے ، اس سلسلے میں بھرپور آگاہی مہمات کے ذریعے چھاتی کے کینسر کے بارے میں ممنوعات سے نجات حاصل کر کے خواتین کو فوری طبی مدد لینے سے متعلق ہچکچاہٹ کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔ خاتون اول ثمینہ عارف علوی نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چھاتی کے کینسر کے بارے میں ان کی آگاہی مہم کے پیش نظر میڈیا اپنے ٹیلی ویڑن پروگراموں اور اخبارات میں اس موضوع کو موثر طریقے سے اجاگر کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس مہینے مختلف شہروں کے کالجوں کا دورہ کریں گی تاکہ لڑکیوں میں خود تشخیص کے حوالے سے شعور بیدار کیا جا سکے۔ انہوں نے خاندانوں کے مردوں پر بھی زور دیا کہ وہ اس بیماری سے منسلک مشکلات کا ادراک کریں اور مناسب طبی دیکھ بھال کے لئے خواتین کی مدد کریں۔
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ بریسٹ کینسر کی شرح پاکستان میں ہی پائی جاتی ہے، ہر سال 90 ہزار کے قریب نئے کیسز کی تشخیص ہوتی ہے جن میں سے 40 ہزار خواتین کی موت ہو جاتی ہے، مختلف ریسرچ کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں ہر 9 میں سے ایک خاتون اس مرض کا شکار ہو سکتی ہے اور یقینا یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔لیکن ساتھ ہی اس بات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ اس مہلک مرض کی وجوہات کیا ہیں؟ اس کی شرح پاکستان میں ہی اتنی زیادہ کیوں ہے؟ مزید براں یہ کہ اس مرض سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
آگاہی کیوں ضروری ہے؟
خواتین میں جِلد کے کینسر کے بعد بریسٹ کینسر سب سے عام مرض ہے۔ اوسط عمر میں ہر عورت میں بریسٹ کینسر کا خطرہ 12فیصد پایا جاتا ہے، جس کے تحت دنیا بھر میں ہر سال تقریبا 3لاکھ خواتین میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے جن میں سے تقریبا 15فیصد 40ہزار خواتین بریسٹ کینسر کے سبب موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر8میں سے ایک خاتون بریسٹ کینسر میں مبتلا ہے جب کہ ہر 2منٹ میں ایک عورت میں بریسٹ کینسر کی تشخیص کی جاتی ہے۔ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے دیکھا جائے توایشیائی خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح سب سے زیادہ پاکستان میں پائی جاتی ہے جس کے باعث یہ مرض ملک میں خواتین کی اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس موذی مرض سے نمٹنے کے لئے لازمی ہے کہ اس مرض کی بروقت تشخیص اور علاج ہو لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ کو اس مرض کے حوالے سے آگاہی حاصل ہو۔اس مرض سے متعلق یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ بریسٹ کینسر کے لئے اسکریننگ ٹیسٹ40سال کی عمر میں شروع کیاجاتا ہے جبکہ سالانہ میموگرافی اور مرض کی بروقت تشخیص کے ذریعے بریسٹ کینسر سے بچا جاسکتا ہے۔ اگر زیادہ سے زیادہ خواتین بریسٹ کینسر کے حوالے سے باشعور ہوں گی تو عین ممکن ہے کہ نہ صرف اس مرض سے ہونے والی اموات میں کمی لائی جاسکے بلکہ اس مرض کی شرح بھی کم ہوجائے۔
بریسٹ کینسر کیا ہے ؟
https://twitter.com/MustansarPK/status/1446445962017267712
جسم کے پٹھے چھوٹے خلیوں سے مل کر بنے ہوتے ہیں لیکن اگریہی خلیے بے قابو انداز میں بڑھنا شروع ہو جائیں اور ایک ڈھیر بنا لیں تو یہ کینسر بن جاتا ہے۔ زیر غور بیماری میں چھاتی میں گلٹی یا رسولی بن جاتی ہے، یہ گلٹی یا رسولی سائز میں بڑھ سکتی ہے اور اس کی جڑیں چھاتی میں پھیل بھی سکتی ہیں،جس کے باعث چھاتی میں تکلیف اور ساخت میں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ چھاتی کے اندر، باہر یا نیچے زخم بڑھ کر بعض اوقات کینسر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ مریض اور مرض کی نوعیت کے مطابق یہ علامات مختلف بھی ہو سکتی ہیں لیکن واضح رہے کہ یہ کینسر متعدی (Infectious) نہیں ہوتا، نہ ہی دوسروں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ بریسٹ کینسر بنیادی طور پر خواتین کو متاثر کرتا ہے، تاہم مردوں میں بھی اس کینسر کے خطرات پائے جاتے ہیں، مگر تشخیص نہ ہونے کے برابرہے بین الاقوامی ڈاکٹرز کی آرا کے مطابق ہارمونز کی بے اعتدالی بریسٹ کینسر کی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔ بنیادی طور پر جسم میں ایسٹروجن ہارمون کی زیادتی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ دوسری جانب خواتین کا غیرصحت مند طرز زندگی اور غیر متوازن خوراک بھی بریسٹ کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔بڑی عمر میں شادی یا زائد عمر میں پہلے بچے کی پیدائش بھی بریسٹ کینسر کا سبب بن سکتی ہیں لیکن اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ جو مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں ان میں بریسٹ کینسر کا خطرہ 4فیصدکم ہوجاتا ہے۔بریسٹ کینسر موروثی کینسر بھی ہے، تقریبا 10فیصد بریسٹ کینسر موروثی جینیاتی نقائص کی وجہ سے ہوتاہے جبکہ جینیاتی نقائص کی حامل خواتین کی اپنی زندگیوں میں اس مرض کے ہونے کے80فیصد امکانات ہوتے ہیں ۔عام طور پر بریسٹ کینسر کا سبب بریسٹ لمپس بھی ہوتے ہیں۔ یہ چھاتی میں بننے والی وہ گلٹیاں ہیں، جنہیں پول سیٹک یا فابٹر و سیٹک کہا جاتا ہے۔ بریسٹ لمپس کے سبب بریسٹ کینسر ہونے کے امکانات خاصے بڑھ جاتے ہیں ۔بروقت تشخیص اس مرض پر قابو پانے کیلئے سب سے پہلا مرحلہ اس کی تشخیص ہے، جس کے لئے طبی ماہرین خواتین کوبریسٹ چیک اپ باقاعدگی سے کروانے کا مشورہ دیتے ہیں، خصوصا ان خواتین کوجن کی عمر 40سال سے زائد ہے۔تشخیص کا بہترین طریقہ میموگرافی ہے، خواتین کسی بھی شبہہ کی صورت میںمیموگرافی کرواسکتی ہیں۔ یہ ایک طرز کا ایکسرے ہوتا ہے جس کے ذریعے چند گھنٹوں میں کینسر کے مرض کا پتا چل جاتا ہے۔ میموگرافی کروانے کے وقت سے متعلق کافی عرصے سے ایک لمبی بحث جاری ہے، تاہم امریکی پریوینٹو سروسز ٹاسک فورس کی ایک حالیہ تجویز کے مطابق50سال میں قدم رکھنے والی تمام تر خواتین کو ہر دو سال میں کم ازکم ایک بار میموگرافی ضرور کروانی چاہیے۔ امریکن کینسر سوسائٹی کے مطابق خواتین کو 45سال کی عمر سے سالانہ اسکریننگ کروانی چاہیے جبکہ50سال کی عمر تک میموگرافی لازمی قرار دی جاتی ہے۔ تاہم اگر کسی کی فیملی ہسٹری میں بریسٹ کینسر کے کیسز موجود ہیں تو اسے اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے مخصوص عمر سے قبل ہی میموگرافی کروالینی چاہیے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں اس مرض کی آگاہی پیدا کی جائے، اس سلسلے میں اکتوبر کو اس مرض کی آگاہی کا مہینہ قرار دیا گیا ہے، بہت سی این جی اوز اس آگاہی مہم میں اہم کردار ادا کر رہی ہوتی ہیں اور پنک ربن نامی (Pink Ribbon ) تنظیم بریسٹ کینسر کی آگاہی اور اس کے مریضوں کے ساتھ ہمدردی میں سر فہرست ہے۔
شوکت خانم ہسپتال نے پانچ منٹس اپنے لئے (5 minutes for me) کے نام سے ایک مہم چلائی جس میں پاکستان کی خواتین کو آگاہی دی گئی کہ بریسٹ کینسر کی تشخیص میں صرف پانچ منٹس ہی درکار ہوتے ہیں، اس مہم میں یہ بھی بتایا گیا کہ 40 سال سے کم عمر خواتین کو ہر مہینے اپنا ٹیسٹ کروانا چاہیے اور 40 سال سے زائد عمر کی خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے ریگولر چیک اپ کے ساتھ ساتھ میمو گرافی بھی کروا لیں جو کہ بریسٹ کینسر کا مخصوص ٹیسٹ ہے، کیوں کہ اس مرض کا خطرہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھ جاتا ہے، اس لئے بڑی عمر میں یہ ٹیسٹ ضروری ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ سماج کے باشعور اور متحرک لوگوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیے کہ بروقت تشخیص ہی اس مرض کا ممکن حل ہے اور یہ مرض قابل علاج ہے، بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بریسٹ کینسر میں مبتلا خاتون ناپاک یا اچھوت ہے جس کی بنا پر نہ تو مریض کا تیار کردہ کھانا کھاتے ہیں اور نہ ہی اس کے قریب جاتے ہیں جو کہ انتہائی غیر اخلاقی عمل ہے جس کی حوصلہ شکنی لازمی ہے۔بریسٹ کینسر کسی بھی دوسرے کینسر کی طرح ایک مرض ہے جو کہ وبائی مرض کی طرح نہیں پھیلتا بریسٹ کینسر کی آگاہی مہم کے نعرے کے مصداق کہ "ہم کر سکتے ہیں، میں کر سکتی ہوں” اسی نعرے پر عمل کرتے ہوئے ہماری خواتین اس مرض کو مات دے سکتی ہیں تاہم ضروری ہے کہ تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اس حوالے سے خواتین کو درست آگاہی فراہم کریں تاکہ بروقت تشخیص کے ذریعے مرض کے بڑھائو پر قابو پاکر قیمتی زندگیاں اور وسائل بچائے جا سکیں۔
@MustansarPK