سگریٹ ،غریب آدمی اور یہ معاشرہ
از قلم: لاریب اقراء
سگریٹ نوشی آج کے دور میں ایک عام عادت نہیں رہی بلکہ یہ ایک انتہائی خطرناک اور تیزی سے پھیلتی ہوئی معاشرتی، طبی اور معاشی بیماری بن چکی ہے۔ یہ بیماری غریب اور امیر دونوں طبقوں کو ایک جیسا نقصان پہنچا رہی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ آج معاشرے کے ہر طبقے میں، چاہے وہ غریب ہو یا امیر، نوجوان ہو یا بوڑھا، مرد ہو یا عورت، سگریٹ کو نہ صرف پیا جا رہا ہے بلکہ کہیں نہ کہیں اسے ایک “رواج” اور “ضرورت” سمجھ کر قبول بھی کیا جا رہا ہے۔ اور اس بات کو نجانے کیوں ہلکا لیا جارہا ہے ۔
امیر طبقہ سگریٹ کو ایک “اسٹیٹس سمبل” یعنی عیش و آرام کی علامت سمجھ کر استعمال کرتا ہے، جبکہ غریب طبقہ ذہنی دباؤ، غربت، بے روزگاری یا ماحول کے منفی اثرات کے باعث اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ امیر آدمی کے لیے شاید سگریٹ کے پیکٹ کی قیمت معمولی ہو، لیکن غریب کے لیے یہی سگریٹ روزانہ اس کی جیب سے روٹی، دوا، تعلیم، اور بچوں کی خوشی چھین لیتا ہے۔ سب سے زیادہ افسوس تب ہوتا ہے جب ایک شخص جو دن بھر محنت مزدوری کر کے چند روپے کماتا ہے، وہ انہی پیسوں کا کچھ حصہ سگریٹ میں جھونک دیتا ہے، اور یوں نہ صرف اپنی صحت بلکہ اپنے خاندان کا مستقبل بھی برباد کرتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس مہلک لت کو صرف غریب طبقے سے نہیں، بلکہ پورے پاکستان سے ختم کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ یہ عادت جہاں غریب کو فاقوں کی طرف لے جاتی ہے، وہیں امیر کو بیماریوں کی طرف دھکیلتی ہے۔ سگریٹ صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے جُڑے ہر انسان، ہر خاندان، ہر محلے، ہر ہسپتال، اور ہر ملک کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
اس زہر کو معاشرے سے ختم کرنے کے لیے سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ حکومت سگریٹ پر بھاری ٹیکس لگائے تاکہ یہ اتنا مہنگا ہو جائے کہ کوئی بھی اسے خریدنے سے پہلے کئی بار سوچے۔ غریب آدمی کو جب یہ احساس ہو کہ ایک سگریٹ کے بدلے وہ اپنے بچے کے لیے دودھ، کتاب یا دوا خرید سکتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ اپنی لت پر قابو پانے کا فیصلہ کرے۔
حکومت کو سگریٹ فروشی پر بھی سخت قوانین لاگو کرنے چاہییں۔ دکانداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ نابالغوں کو سگریٹ فروخت نہ کریں اور ایسی دکانوں کے خلاف کارروائی کی جائے جہاں یہ زہر عام مل رہا ہو۔ صرف یہی نہیں بلکہ دکانوں کے آس پاس اشتہارات، بورڈز یا ایسے پوسٹرز جو سگریٹ کو فروغ دیتے ہوں، انہیں مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے۔
اس کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور بیدار کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ خاص طور پر غریب اور کم تعلیم یافتہ افراد کو سمجھایا جائے کہ سگریٹ کا ہر کش ان کے جسم کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، ان کے پھیپھڑوں، دل، دانت، اور دماغ کو آہستہ آہستہ تباہ کر رہا ہے۔ وہ نادانی میں صرف اپنی ہی صحت کو نہیں بلکہ اپنے بچوں، بیوی، والدین اور آس پاس کے لوگوں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
اس مقصد کے لیے میڈیا، سوشل میڈیا، اسکول، مساجد، کمیونٹی سینٹرز اور فلاحی تنظیموں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ایسے پروگرام ہونے چاہییں جن میں عوام کو آسان زبان میں، تصویروں اور مثالوں کے ذریعے بتایا جائے کہ سگریٹ کیسے خاموشی سے زندگی چھین لیتا ہے۔
حکومت اور فلاحی ادارے اگر نکوٹین چھوڑنے کے پروگرامز جیسے مفت مشاورت، دوا، نکوٹین پیچ اور سپورٹ گروپس فراہم کریں تو بہت سے لوگ اس عادت کو خیر باد کہہ سکتے ہیں۔ اصل ضرورت صرف ایک "سہارے” کی ہے — ایک ہمدرد آواز، ایک خالص نیت والا ہاتھ، جو ان لوگوں کو اس دھوئیں سے نکال کر صاف اور روشن زندگی کی طرف لے جائے۔
نوجوان طبقہ اس کا سب سے آسان شکار بنتا ہے۔ جب وہ اپنے بڑوں کو سگریٹ پیتے دیکھتے ہیں تو وہ اسے "معمول” سمجھ کر اپنانے لگتے ہیں۔ اس لیے والدین، اساتذہ اور کمیونٹی لیڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور نوجوانوں کو ابتدا سے ہی اس لت سے دور رکھنے کی تربیت دینا ہوگی۔
سگریٹ نوشی صرف ایک عادت نہیں بلکہ ایک زہر ہے جو جسم، دماغ، تعلقات، معیشت اور نسلوں کو خاموشی سے نگل رہا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کا کوئی بھی فرد ” چاہے وہ غریب ہو یا امیر ” اس زہر سے محفوظ رہے تو ہمیں پورے ملک میں اس کے خلاف ایک مضبوط، مسلسل، اور اجتماعی جدوجہد کرنا ہوگی۔ یہ صرف حکومت کی نہیں بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم نے آج قدم نہ اٹھایا، تو کل ہمارے بچے بھی اسی دھوئیں میں سانس لیں گے جسے ہم نظر انداز کر رہے ہیں۔ ایک بات جو سوشل میڈیا پر کچھ دنوں پہلے بہت وائرل تھی ۔
کہ سگریٹ مرد پیے تو پھپھڑے خراب اگر عورت پیے تو کردار خراب ۔۔۔۔ ایسا کیوں
یہ کہاوت ہمارے معاشرتی اور ثقافتی نظریات کی عکاس ہے جہاں مردوں کی سگریٹ نوشی کو عموماً صحت کے نقصان کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جبکہ خواتین کی سگریٹ نوشی کو کردار کی خرابی اور سماجی بدنامی کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ یہ فرق درحقیقت ہمارے معاشرے میں صنفی امتیاز اور قدامت پسند سوچ کی عکاسی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سگریٹ نوشی مرد و زن، ہر انسان کے لیے ایک زہر ہے جو نہ صرف جسمانی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ شخصیت، وقار اور زندگی کے ہر پہلو کو دھوئیں میں لپیٹ لیتا ہے۔