سویلینز کے بنیادی حقوق ختم کرکے کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا،وکیل سلمان اکرم راجہ

3 مہینے قبل
تحریر کَردَہ
islamabad

اسلام آباد:سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران سزایافتہ مجرم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سویلینز کے بنیادی حقوق ختم کرکے کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا۔

باغی ٹی وی : فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت آج بھی کی گئی۔منگل کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی اس دوران فوجی عدالت سے سزا یافتہ مجرم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئے-

وکیل سلمان اکرم راجہ نے موقف اختیار کیا کہ سادہ لفظوں میں بات کی جائے تو سویلنز کے بنیادی حقوق ختم کرکے کورٹ مارشل نہیں کیا جاسکتا، سویلنز کا کورٹ مارشل شفاف ٹرائل کے بین الاقوامی تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا، جس پر سلمان اکرم راجہ کا موقف تھا کہ انگلینڈ میں کورٹ مارشل فوجی نہیں بلکہ آزاد ججز کرتے ہیں، بین الاقوامی تقاضوں کے تحت ٹرائل کھلی عدالت میں، آزادانہ اور شفاف ہونا چاہیے، بین الاقوامی قوانین کے مطابق ٹرائل کے فیصلے پبلک ہونے چاہئیں، دنیا بھر کے ملٹری ٹریبونلز کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں عدالتوں میں جاتی ہیں یورپی عدالت کے فیصلے نے کئی ممالک کو کورٹ مارشل کا طریقہ کار بھی تبدیل کرنے مجبور کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کیا جائے تو نتیجہ کیا ہوگا ؟جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کرنے کا مطلب ہے کہ ٹرائل شفاف نہیں ہوا،جسٹس جمال مندوخیل نے پھر استفسار کیا کہ کوئی ملک اگر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو کیا ہوگا؟

جس پر سلمان اکرم راجہ کا مؤقف تھا کہ کچھ بین الاقوامی اصولوں کو ماننے کی پابندی ہوتی ہے اور کچھ کی نہیں، شفاف ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے بین الاقوامی اصولوں کی روشنی میں ہی آئین کا حصہ بنایا گیاایف بی علی کیس کے وقت آئین میں اختیارات کی تقسیم کا اصول نہیں تھا، پہلے تو ڈپٹی کمشنر اور تحصیلدار فوجداری ٹرائلز کرتے تھے، کہا گیا اگر ڈی سی فوجداری ٹرائل کر سکتا ہے تو کرنل صاحب بھی کر سکتے تمام ممالک بین الاقوامی اصولوں پر عملدرآمد کی رپورٹ اقوام متحدہ کو پیش کرتے ہیں، جس پر یو این کی انسانی حقوق کمیٹی رپورٹس کا جائزہ لے کر اپنی رائے دیتی ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ گزشتہ سال اکتوبر اور نومبر کے اجلاسوں میں پاکستان کے فوجی نظام انصاف کا جائزہ لینے کے بعد یو این کی انسانی حقوق کمیٹی نے پاکستان میں سویلنز کے کورٹ مارشل پر تشویش ظاہر کی تھی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے مطابق پاکستان میں فوجی عدالتیں آزاد نہیں، رپورٹ میں حکومت کو فوجی تحویل میں موجود افراد کو ضمانت دینے کا کہا گیا، اسی طرح یورپی کمیشن کے مطابق 9 مئی کو احتجاج والوں کا کورٹ مارشل کرنا درست نہیں یورپی یونین نے ہی پاکستان کو جی ایس پی پلیس سٹیٹس دے رکھا ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں یہی نکات اٹھائے ہیں، ہزاروں افراد کا ٹرائل اے ٹی سی میں ہو سکتا تو ان 105 ملزموں کا کیوں نہیں۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یو کے میں ایک فیڈلی نامی فوجی کا کورٹ مارشل ہوا، یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس نے اس کا خصوصی ٹرائل کالعدم قرار دے دیا تھا، فیڈلی ذہنی تناؤ کا شکار تھا، اس نے فائرنگ کی، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فیڈلی کی فائرنگ سے بھی ایک ٹی وی ٹوٹ گیا تھا، نومئی واقعات میں بھی ایک ٹی وی توڑا گیا۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ نو مئی واقعات میں ٹی وی توڑنے والے سے میری ملاقات ہوئی، وہ بیچارہ شرم سے ڈوبا ہوا تھا، ٹی وی توڑنے والا بیچارہ چار جماعتیں پاس بے روزگارتھا، ہمارے معاشرے نے ایسے لوگوں کو کیا دیا، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ انفرادی باتیں نہ کریں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ نے فیڈلی سے ملاقات بھی کی؟جس پر جسٹس نعیم اختر افغان بولے کہ نہیں سلمان راجہ نے پاکستانی فیڈلی سے ملاقات کی ہے،جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ نے کہا میرا موکل فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتا تھا، نو مئی والے دن وہ کرکٹ کھیلنے تو نہیں گیا تھا ناں۔

Latest from اسلام آباد