ڈیرہ غازی خان (باغی ٹی وی رپورٹ) ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقے زین جو کوہ سلیمان کے دامن میں واقع ہے، میں 17 مئی 2025 کو ایک واقعہ پیش آیا جس نے قومی اور بین الاقوامی توجہ حاصل کی۔ ایک نوجوان جمال خان ولد رحیم بخش پر خاتون سے مبینہ تعلقات کے الزام کے تحت غیر قانونی جرگے کے حکم پر "آف پانی” کی رسم ادا کی گئی۔ اس واقعے نے قبائلی رسومات، غیر قانونی جرگوں کے فیصلوں اور ان کے سماجی و قانونی مضمرات پر بحث کو جنم دیا۔ معاملہ اس وقت پیچیدہ ہو گیا جب جمال خان نے اپنے ابتدائی بیان سے مکرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اسے کسی نے پانی میں نہیں ڈبویا بلکہ وہ اپنی مرضی سے نہانے گیا تھا۔ یہ رپورٹ واقعے کی مکمل تفصیلات اور اس سے جڑے قانونی و سماجی پہلوؤں کا جائزہ پیش کرتی ہے۔

واقعہ زین میں پیش آیا، جہاں زیادہ تر بلوچ قبائل آباد ہیں۔ جمال خان پر اس کے چچا نے اپنی بیٹی (جمال کی کزن) کے ساتھ مبینہ جنسی تعلقات کا الزام عائد کیا۔ چچا کا دعویٰ تھا کہ جمال اس کی بیٹی پر "بری نظر” رکھتا ہے۔ اس الزام کی بنیاد پر غیر قانونی جرگہ منعقد کیا گیا، جس نے روایتی رسم "آف پانی” کے ذریعے بے گناہی یا قصور واری ثابت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس رسم میں ملزم کو رسی سے باندھ کر 200 فٹ گہرے تالاب میں چھلانگ لگانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ ملزم کو تقریباً چار منٹ تک پانی کے اندر سر ڈبو کر رہنا ہوتا ہے۔ اگر وہ زندہ باہر نکلے، تو بے گناہ سمجھا جاتا ہے اگر ڈوب جائے تو قصوروار قرار دیا جاتا ہے۔ رسی کا مقصد ڈوبنے کی صورت میں لاش نکالنا ہوتا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق تالاب کی گہرائی 200 فٹ سے زیادہ تھی جو رسم کی خطرناک نوعیت کو ظاہر کرتی ہے۔

جمال خان نے جرگے کے حکم پر تالاب میں چھلانگ لگائی اور مقررہ وقت کے بعد زندہ باہر نکل آیا۔ واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں اس کی کمر پر رسی بندھی دکھائی دی ،18 مئی 2025 کو جمال خان نے بارڈر ملٹری پولیس (بی ایم پی) کے تھانہ زین میں ایف آئی آر درج کروائی، جس میں دعویٰ کیا کہ اسے زبردستی تالاب تک لے جایا گیا اور پانی میں ڈبویا گیا۔ ایف آئی آر میں پانچ افراد، جن میں جرگے کا سرپنچ بھی شامل تھا، کو نامزد کیا گیا۔ بی ایم پی نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا اور گرفتاری کے لیے چھاپے مارے، لیکن ملزمان نے مقامی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی اور تفتیش میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کی۔

کمانڈنٹ بی ایم پی محمد اسد چانڈیا نے بتایا کہ ایف آئی آر میں جرگے کے انعقاد کی تفصیلات نہیں تھیں۔ تفتیش سے پتا چلا کہ جمال اور الزام لگانے والے چچا کے خاندان سمیت قبیلے کے 10 خاندان ایک ہی جگہ رہتے ہیں۔ جمال کو گواہ پیش کرنے کا کہا گیا لیکن وہ کوئی گواہ پیش نہیں کر سکا۔

جیونیوز کے مطابق ڈیرہ غازی خان میں جرگے کے فیصلے پرگہرے پانی میں ڈالےگئے نوجوان نے پولیٹیکل انتظامیہ کوبیان حلفی جمع کرا تے ہوئے درج مقدمہ خارج کرنے کا کہہ دیا۔بیان حلفی اور ویڈیو بیان میں نوجوان نے کہا کہ اسے کسی نے پانی میں نہیں ڈبویا، اپنے رشتے داروں کے ساتھ تالاب میں نہانےگیا تھا، پانی میں جانےکی ویڈیو کسی نامعلوم شخص نے بنا کر وائرل کی۔

پولیٹیکل اسسٹنٹ کے مطابق یہ بیان عدالت میں پیش کیا جائے گا اور جمال کے خلاف غلط بیانی پر مقدمہ درج کیا جائے گا۔ اس سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا جمال پر دباؤ ڈالا گیا یا اس نے اپنی مرضی سے بیان تبدیل کیا۔

کوہ سلیمان کے قبائلی علاقوں میں غیر قانونی جرگے مقامی مسائل کے حل کے لیے منعقد ہوتے ہیں۔ ان کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، لیکن قبائلی دباؤ کی وجہ سے عملدرآمد ہوتا ہے۔ ایک مقامی رہائشی شخص کے مطابق جرگے کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے کو باغی قرار دے کر قبیلے سے نکال دیا جاتا ہے اور بعض اوقات اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ "آف پانی” کی رسم میں ملزم کو چار منٹ تک گہرے پانی میں سر ڈبو کر رہنا ہوتا ہے۔ ایک اور رسم میں ملزم کو گرم لوہے کا راڈ پکڑنے اور اس پر تین بار زبان لگانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اگر ہاتھ یا زبان جل جائے تو قصوروار سمجھا جاتا ہے۔ چھوٹے جرائم کے لیے لوہے کے راڈ کی رسم اور سنگین جرائم کے لیے "آف پانی” کی رسم رائج ہے۔ ایک شخص کا کہنا تھاکہ ہ "ونی” کی رسم بھی عام ہے، جس میں تنازعات کے حل کے لیے لڑکیوں کی شادیاں کی جاتی ہیں۔ اسد چانڈیا کا کہنا ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں یہ رسومات تقریباً ختم ہو چکی ہیں، لیکن بلوچستان کے کچھ علاقوں میں اب بھی موجود ہیں۔

یہ واقعہ قبائلی رسومات اور قانونی نظام کے درمیان تصادم کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کے قانون کے تحت غیر قانونی جرگوں کا انعقاد اور ان کے فیصلوں پر عملدرآمد ممنوع ہے، لیکن قبائلی دباؤ کی وجہ سے ان کا اثر و رسوخ برقرار ہے۔ وائرل ویڈیو نے رسم کی خطرناک نوعیت اور قانونی نظام کے نفاذ کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ واقعے کے بعد جمال کے بھائیوں اور قبیلے کے ارکان نے کلمہ چوک تونسہ پر احتجاج کیا اور جرگے کے ارکان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ مقامی صحافیوں اور رہائشیوں نے بھی انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔ بی ایم پی تفتیش کر رہی ہے، لیکن ملزمان کی ضمانت اور جمال کے تبدیل شدہ بیان نے معاملے کو پیچیدہ کر دیا ہے۔ پولیٹیکل انتظامیہ جمال کے حلفیہ بیان کو عدالت میں پیش کرے گی اور اس کے خلاف غلط بیانی کا مقدمہ درج کرے گی۔

یہ واقعہ غیر قانونی جرگوں اور ان کے خطرناک فیصلوں کے مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔ اگرچہ جمال زندہ بچ گیا، لیکن اس واقعے نے قبائلی رسومات کے خطرناک نتائج اور ان کے خاتمے کی ضرورت کو عیاں کیا۔ قانونی اداروں کو شفاف تفتیش کے ذریعے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔ قبائلی علاقوں میں تعلیم، شعور، اور قانونی نظام کے نفاذ سے ایسی غیر انسانی رسومات کا خاتمہ ممکن ہے۔

Shares: