انگریزی کے ممتاز شاعر و ادیب،جان ملٹن

جان ملٹن کی شاعری کی عظمت پر سب کو اتفاق ہے
0
94

جان ملٹن ، انگریزی کے ممتاز شاعر و ادیب

جان ملٹن انگریزی کا ایک عظیم شاعر اور مصنف تھا جس کے کلام کو نہ صرف انگریزی ادب میں بلکہ دنیا کے ادب میں اہم مقام حاصل ہے۔ اس کی بعض نظمیں دنیا کے اعلٰی ترین ادب میں شمار کی جاتی ہیں۔ جان ملٹن کی شاعری کی عظمت پر سب کو اتفاق ہے لیکن اس کی نجی زندگی، اس کی سیاست اور اس کے مذہبی خیالات کے بارے میں اس کے نقادوں میں ہمیشہ سخت اختلاف رہا ہے۔

ملٹن لندن میں پیدا ہوا اور سینٹ پال اسکول اور کرائسٹ کالج کیمبرج میں تعلیم حاصل کی۔ اس نے انگریزی اور لاطینی دونوں میں شاعری کی۔ شروع میں وہ چرچ میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ بعد میں اس نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔ اس لیے کہ برطانوی چرچ میں رسم پرستی بہت آ گئی تھی۔ آخر کار اس نے شاعری پر پوری توجہ صرف کرنے کا فیصلہ کیا اور کیمبرج میں تعلیم ختم کرنے کے بعد وہ اپنے باپ کی دیہی جائیداد پر رہنے لگا۔ یہاں اس نے کئی نظمیں لکھیں جن میں اس کی ایک نہایت عظیم نظم لسی ڈس (Lycidas) بھی ہے جو اس نے اپنے دوست ایڈورڈکنگ کی وفات پر لکھی تھی۔ ۱۶۳۸ میں اپنی ماں کے انتقال کے بعد وہ اٹلی گیا۔ وہاں سیر کے علاوہ کافی مطالعہ بھی کیا اور اہم شخصیتوں سے ملا۔ ان میں گیلیلیو بھی تھا۔ ایک سال بعد واپس آیا اور بڑے زور شور کے ساتھ چرچ میں اصلاح کی مہم میں لگ گیا۔ کئی رسالے لکھے۔ ۱۶۴۳ میں اس نے میری پاول کے ساتھ شادی کی جو ایک سال بعد اسے چھوڑ کر چلی گئی۔

اسی سال ملٹن نے چار رسالے لکھنے شروع کیے جن پر طوفان کھڑا ہو گیا۔ ایک میں اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اگر شوہر اور بیوی کی ایک دوسرے کے ساتھ نبھ نہ سکے تو طلاق لے لینا اخلاقاً جائز ہے۔ اس نے ایک اور رسالہ پریس کی آزادی پر لکھا جس کا عنوان "آریوپوگٹیکا” (Areopogitica) تھا۔ اسے اس کی نثری تصنیفات میں اہم مقام حاصل ہے۔ اس میں پارلیمنٹ کی پریس پر لگائی ہوئی سنسر شپ پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ ایک اور رسالہ میں اس نے اس پر بحث کی ہے کہ رعایا اپنے نااہل بادشاہ کو تخت سے ہٹا سکتی ہے اور اسے موت کی سزا بھی دے سکتی ہے۔ اس کے نتیجہ کے طور پر اسے کرامول نے اپنی حکومت میں سکریٹری یا وزیر بنا لیا اور اسے بیرونی زبانوں کا محکمہ سپرد کیا گیا۔اسی زمانہ میں اس نے برطانوی عوام کی مدافعت میں کئی رسالے لکھے۔

ملٹن کی آنکھیں بچپن سے بہت خراب تھیں جب اتنا سرکاری کام اس کے سر پر آ پڑا تو آنکھیں بالکل جواب دے گئیں اور وہ بالکل اندھا ہو گیا اور اپنے سکریٹری کی مدد سے کام چلانے لگا۔

۱۶۶۳ میں ملٹن نے ایلزبیتھ من شل سے شادی کر لی۔ وہ آخر تک کامن ویلتھ کی حمایت کرتا رہا اور جب شاہیت دوبارہ قائم (۱۶۶۰) ہو گئی تو وہ کچھ عرصہ کے لیے روپوش ہو گیا۔ اس کی بعض کتابیں جلا دی گئیں۔ عام معافی میں اسے بھی معاف کر دیا گیا اور اس کے بعد سے وہ خاموش زندگی گزارنے لگا۔

وہ ایک زمانہ سے ایک شاہکار نظم لکھنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک طویل نظم "بلینک ورس” میں لکھی جو ۱۶۶۷ میں مکمل ہوئی۔ یہ بارہ جلدوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا نام اس نے "جنت کی گمشدگی” (Paradise Lost) رکھا۔ ہم عصروں نے بے حد تعریف کی اور اس کے بعد سے یہ عظیم رزمیہ نظموں میں شمار ہونے لگی۔ اس میں حضرت آدم اور حضرت حوا کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ جب وہ باغ عدن میں تھے۔ اس کے ذریعہ اس نے اس دنیا میں پھیلی ہوئی برائیوں کی وجہ سمجھائی ہے۔ "جنت کی بازیافت” (Paradise Regained) اس کی ایک اور طویل بلینک ورس نظم ہے جو چار جلدوں میں ہے۔ اس میں اس نے یہ بتایا ہے کہ کس طرح حضرت عیسٰی حضرت آدم سے برتر تھے۔ کس طرح شیطان ان کو ترغیب دینے میں ناکام رہا۔ اسی کے ساتھ اس نے یونانی ٹریجڈی کے نمونہ پر ایک منظوم ڈرامہ بھی لکھا جس کا قصہ انجیل ہی سے لیا گیا تھا۔ ملٹن اگرچہ بنیادی طور پر پروٹسٹنٹ مذہب کا تھا لیکن بہت ساری چیزوں کے بارے میں اس کے اپنے ذاتی عقائد تھے جو اس نے اپنے ایک رسالہ میں تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ یہ رسالہ اس کی زندگی میں شائع نہیں ہوا۔ اس کا سراغ بہت بعد میں لگا اور پھر یہ شائع ہوا۔

Leave a reply