وہ جو اڈیالہ جیل میں بیٹھا ہے، اسے خبر نہیں کہ باہر کی دنیا بدل چکی ہے۔ وہ خود ایک قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ پاکستان نے ترقی کے ایک نئے سفر کا آغاز کر دیا ہے۔
— مریم نواز، وزیراعلیٰ پنجاب
یہ بیان محض لفظوں کا کھیل نہیں، بلکہ حقیقت کی عکاسی ہے۔ عمران خان، جو کبھی پاکستان کی سیاست میں ایک مقبول اور اثرورسوخ رکھنے والا نام تھے، آج اپنی چرب زبانی، وعدہ خلافیوں اور سیاسی ناکامیوں کی وجہ سے ایک ختم شدہ سیاستدان کے طور پر نظر آتے ہیں۔ ان کی حکومت کے دوران بڑے بڑے منصوبے صرف وعدوں تک محدود رہے، معیشت بحران کا شکار رہی، اور عوامی توقعات کے برعکس اداروں کے ساتھ تعلقات مسلسل تناؤ کا شکار رہے۔ ہر بیان میں شعلہ انگیزی اور جذباتی نعرے تو تھے، مگر عملی میدان میں کچھ نہیں کیا گیا۔ عوامی توقعات کے بجائے محض سیاسی شو چلائے گئے، اور اس دوران حکومت کی بنیادی ذمہ داریاں پس پشت ڈال دی گئیں۔
عمران خان کی چرب زبانی اور عوامی بیانات اکثر حقیقت سے دور رہے۔ وہ عوام کے جذبات کو بھڑکانے میں ماہر تھے، مگر عملی منصوبے اور نتائج ہمیشہ کمزور ثابت ہوئے۔ ان کے دورِ حکومت میں بڑے اقتصادی منصوبے جیسے ٹیکس اصلاحات، سرمایہ کاری میں اضافہ، اور معاشی استحکام کے دعوے زیادہ تر جزوی کامیابی تک محدود رہے۔ تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے بھی بروقت مکمل نہ ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کی سیاست پر شک و شبہات نے جنم لیا۔ سعودی عرب اور دیگر اہم ممالک، جو پہلے ان کی سیاست میں دلچسپی رکھتے تھے، اب کسی تعاون کے لیے تیار نہیں۔ عالمی رہنما اور ادارے ان کی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں، اور عمران خان کی چرب زبانی کے باوجود ان کی عالمی کشش کمزور پڑ گئی ہے۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے بھی عمران خان کے خلاف محاذ قائم کر دیا۔ ہر ٹویٹ، ہر بیان اور ہر پالیسی پر سوشل میڈیا پر بحث اور تنقید جاری رہی۔ بلاگز، نیوز ویب سائٹس اور ٹک ٹاک و یوٹیوب پر ان کے بیانات کا تجزیہ اور تنقید ہوتی رہی۔ اکثر لوگ ان کی چرب زبانی اور وعدہ خلافیوں کو نمایاں کرتے رہے۔ ان کے سوشل میڈیا پیغامات نے کبھی کبھار مثبت اثر پیدا کیا، مگر مجموعی طور پر عوامی تنقید اور مباحثے نے ان کی مقبولیت کو نقصان پہنچایا۔ میمز، طنز اور طنزیہ ویڈیوز نے ان کی عوامی شبیہ کو متاثر کیا، اور نوجوان طبقے میں ان کے خلاف ردعمل کو مزید بڑھایا۔
عمران خان کی سب سے بڑی سیاسی کمزوری ان کے مخالفین، خصوصاً خواتین کے خلاف بیانات ہیں۔ ان کے بعض بیانات نے عوامی رائے اور میڈیا میں شدید تنقید کو جنم دیا۔ خواتین کے خلاف مبینہ بیانات اور جارحانہ زبان نے انہیں عوامی سطح پر تنقید اور قانونی خطرات سے دوچار کیا۔ اس کے علاوہ دیگر سیاسی رہنماؤں اور مخالفین کے بارے میں ان کے جارحانہ بیانات نے نہ صرف سیاسی تنازعہ بڑھایا بلکہ ان کی عالمی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔ یہ بیانات اب سوشل میڈیا اور خبروں میں مسلسل ان کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں، جو ان کے سیاسی مستقبل کو مزید محدود کر رہے ہیں۔
ان کے قانونی مسائل نے بھی ان کی سیاسی کشش کو شدید متاثر کیا ہے۔ ان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف کرپشن، بدعنوانی اور دیگر الزامات کے مقدمات چل رہے ہیں، جنہوں نے ان کی ساکھ کو مزید دھچکا پہنچایا ہے۔ ہر قانونی کیس نے عمران خان کی حکومت اور ان کے سیاسی دعووں پر سوالیہ نشان لگا دیا، اور عوامی اعتماد میں کمی پیدا کی۔ عدالتوں میں سماعتیں، میڈیا میں رپورٹنگ، وکلاء کے بیانات اور عوامی ردعمل نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جس نے ان کی سیاسی پوزیشن کو کمزور کر دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کا سیاسی عروج جنرل قمر باجوہ کی حمایت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ان کا سیاسی سفر دراصل "باجوا پراجیکٹ” تھا، جو اب ختم ہو چکا ہے۔ جب باجوہ نہیں رہے تو عمران خان بھی سیاسی میدان سے باہر ہو چکے ہیں۔ ان کی چرب زبانی، جذباتی بیانات اور وعدے اب نہ عوام کو متاثر کر رہے ہیں اور نہ عالمی سطح پر کسی کی توجہ حاصل کر پا رہے ہیں۔ ان کے سیاسی دعوے، جو کبھی بڑے عوامی جلسوں اور میڈیا میں چرچے کا مرکز بنتے تھے، اب محض ماضی کی ایک یاد بن گئے ہیں۔
پاکستان آج ترقی، استحکام اور مضبوط اداروں کی طرف گامزن ہے۔ عمران خان کی کہانی اب ایک ایسا باب ہے، جو شعلہ بیانی، چرب زبانی اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں رہا۔ اب ملک کی ترقی، عوام کی بھلائی اور جمہوریت مضبوط کرنے کا وقت ہے۔ جذباتی نعرے اور کھوکھلے وعدے اب پاکستان کی ترقی کا راستہ نہیں روک سکتے۔
یہ حقیقت ہر پاکستانی کے لیے واضح ہے کہ اگر سیاسی بیانات اور نعرے عملی اقدامات اور نتائج سے ہم آہنگ نہ ہوں تو وہ محض عوامی جذبات کو بھڑکانے تک محدود رہ جاتے ہیں۔ عمران خان کا کیس اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اب وہ ایک ختم شدہ سیاستدان کے طور پر عوام کی یادوں میں موجود ہیں، جبکہ پاکستان نے ایک نئے ترقیاتی اور استحکام کے سفر کا آغاز کر دیا ہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی سیاست میں واپسی کے امکانات بھی محدود ہیں۔ قانونی مسائل، عوامی ردعمل اور سیاسی تنقید کے درمیان، ان کے لیے دوبارہ مؤثر کردار ادا کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ان کے بیانات، عالمی سطح پر عدم دلچسپی، اور قانونی دباؤ انہیں ایک محدود اور ختم شدہ سیاسی شخصیت کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنی ترقی، عوام کی بھلائی اور جمہوریت کو مضبوط کرنے پر توجہ دے۔ جذباتی نعرے اور کھوکھلے وعدے اب ملک کے روشن مستقبل کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ عمران خان کی سیاست اب ماضی کی بات ہے، اور پاکستان ایک نئے، روشن اور مستحکم عہد کی طرف بڑھ رہا ہے، جہاں عملی اقدامات اور نتائج کی اہمیت جذباتی بیانات سے کہیں زیادہ ہے۔