پاکستان میں بھارتی دہشت گردی اور بڑھتا ہوا سیاسی و معاشی بحران
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰبڈانی
گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 کے تازہ اعداد و شمار نے پاکستان کو دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر رکھا ہے۔ 2011 سے 2024 تک کے عرصے میں 1098 دہشت گردانہ واقعات میں ایک ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ رواں سال کے آغاز سے ہی دہشت گردی کی نئی لہر نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہواہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد سے دہشت گردی میں خطرناک اضافہ ہوا جو پاکستان کے لیے نہایت تشویشناک ہے۔ اس صورتحال نے واضح کر دیا کہ دشمن قوتیں خطے میں انتشار پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس شکست سے پیدا ہونے والی خفت کو مٹانے کے لیے خطے میں نئی سازشوں کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جو قربانیاں دیں وہ شاید ہی کسی اور ملک نے دی ہوں۔ ان حملوں کے پیچھے بھارت کا کردار اب کوئی راز نہیں رہا۔ کلبھوشن یادو نیٹ ورک کے ثبوت اقوام متحدہ، امریکی دفتر خارجہ اور یورپی پارلیمنٹ سمیت عالمی اداروں کے سامنے پیش کیے جا چکے ہیں۔ امریکی جریدے فارن پالیسی نے بھی مودی حکومت اور داعش کے گہرے روابط کی نشاندہی کی ہے جو علاقائی اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔
امریکہ ایشیا میں سرمایہ کاری، تجارت اور سفارت کاری کے ذریعے اپنا اثر بڑھا رہا ہے جبکہ بھارت اس کا ہمنوا بن کر خطے کو غیر مستحکم کرنے میں مصروف ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک جیسے اربوں ڈالرز کے معاہدوں نے جہاں ترقی کی نوید سنائی، وہیں امریکہ اور بھارت گوادر بندرگاہ اور اقتصادی راہداری میں روڑے اٹکا رہےہیں۔ چینی انجینئرز اور شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ اسی سازش کا حصہ ہے، جس کا مقصد ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے۔ بھارت نے گزشتہ دو دہائیوں سے امریکی پشت پناہی کے ساتھ منظم تخریب کاری کو فروغ دیا۔
افغانستان میں امریکی ناکامی کے بعد مودی نے داعش کے ذریعے دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع کیا۔ اس صورتحال نے افغان قیادت اور انٹیلی جنس کو زہر آلود کر دیا، جس سے خطے میں امن کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ پاکستان مسلسل عالمی برادری سے مطالبہ کرتا رہا کہ حالات کو اس نہج پر نہ لایا جائے جہاں خطے کی سلامتی داؤ پر لگ جائے مگرپاکستان کی ان کوششوں کو مسلسل نظرانداز کیا گیاہے۔
دہشت گردی کی وجہ سے سرمایہ کار پاکستان سے منہ موڑ رہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو باقی کاروباری افراد بھی بیرون ملک منتقل ہو جائیں گے۔افغانستان میں گوریلا جنگ کے دوران افغانیوں کی آمد نے پاکستان میں منشیات اورکلاشنکوف کلچر کو فروغ دیا اور معیشت پر بوجھ بڑھایا۔ فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اور اس کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا۔ دو دہائیوں میں 80 ہزار سے زائد شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی شہادت اور اربوں ڈالرز کا مالی نقصان اس کی گواہی دیتا ہے کہ پاکستان کو افغان جنگ سے کتنا ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
بلوچستان میں ٹرین پر حملہ اور خودکش بم دھماکے اور خیبرپختون خوا میں ہونے والے حالیہ حملوں میں پولیس اور معصوم بچوں کے علاوہ جیدعلمائے کرام کو نشانہ بنایاگیا، جس سے ملک میں خوف کی فضا پھیل گئی۔ یہ سفاکانہ کارروائیاں پاکستان کو غیر محفوظ ملک کے طور پر پیش کرنے کی سازش کا حصہ ہیں۔ اس نازک صورتحال میں اندرونی سیاسی عدم استحکام نے حالات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ہر وقت احتجاج اور افراتفری کی سیاست ملک کو کمزور کرنے والے عناصر کے لیے سازگار ماحول پیدا کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا ملک میں عدم استحکام پھیلانے والوں کے لیے نرم گوشہ اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی افغان طالبان سے ڈائیلاگ کی خواہش وفاق کو کمزور کرنے کی سازش کا حصہ دکھائی دیتی ہے۔
پی ٹی آئی کو ضدی بچے والے کردار سے ہٹ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ انتشار کی سیاست چھوڑ کر قومی یکجہتی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرسکتی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا اس کی اولین ذمہ داری ہے۔ پی ٹی آئی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان سلامت رہا تو سیاست بھی جاری رہے گی۔ تمام سیاسی جماعتوں اور محب وطن قوتوں کا مطمع نظر سب سے پہلے پاکستان کی بقا اور سلامتی ہونی چاہیے۔
ماضی میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑچکا ہے لیکن موجودہ حملوں نے سکیورٹی نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا۔ اگر اس ناسور کا علاج نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اختلافات بھلا کر دہشت گردی کے خلاف متحد ہو جائیں۔ قومی سلامتی کے معاملات پر یکجہتی اور سہولت کاروں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی ہی اس بحران سے نکلنے کا راستہ ہے۔ پاکستانی قوم اپنی سکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑی ہے اور اس عزم کو عملی شکل دینے کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں امن و استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ اگر ہم آج انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے تیار نہیں ہوئے تو کل اس کی قیمت ہماری نسلوں کو چکانا پڑے گی۔