سپریم کورٹ،فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر حکم امتناع دینے کی استدعا مسترد

فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی
0
38
Supreme Court

فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لاجر بنچ نے سماعت کی،جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر،جسٹس یحییٰ آفریدی بنچ میں شامل ہیں،جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ ہیں،صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری روسٹروم پر آ گئے اور کہا کہ میں نے بھی اس کیس میں درخواست دائر کی تھی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خوشی پے سپریم کورٹ بار بھی اس کیس میں فریق بن رہی ہے ،اچھے دلائل کو ویلکم کریں گے، چآپ آج اس وقت درخواست دائر کر رہے ہیں ؟ عابد زبیری نے کہا کہ ابھی افس میں دائر ہو گئی ہے،

ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا، اٹارنی جنرل
عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے عدالت میں کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں،میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائلز کے خلاف ہیں ، فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ،ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل پریس کانفرنس میں کہا کہ ٹرائل جاری ہیں ، ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اٹارنی جنرل کے بیان سے متضاد ہے ،میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے،

اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا،جسٹس عائشہ ملک
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ ملٹری کورٹس بھیجے گئے ملزمان پر سیکشن 2 ڈی ون لگائی گئی ہے یا 2 ڈی 2 ؟ کل کے بعد اسی معاملے کی وضاحت ضروری ہو گئی ہے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ ابھی تک سیکشن 2ڈی 2 لگائی گئی ہے، سیکشن 2 ڈی ون کا اطلاق بعد میں ہو سکتا ہے،آج کے دن تک 2 ڈی ٹو کا ہی اطلاق ہوا ہے ،جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بی ایل ای اور ڈسٹرکٹ بار کیس کے فیصلے سویلین کا فورسز کے اندر تعلق سے متعلق کچھ ٹیسٹ آپلائی کرتا ہے، کیسے تعین ہو گا ملزمان کا عام عدالتوں میں ٹرائل ہو گا یا ملٹری کورٹس میں ، وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتا، اکیسویں ترمیم میں یہ اصول طے کر لیا گیا ہے کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اندرونی تعلق بارے جنگ کے خطرات دفاع پاکستان کو خطرہ جیسے اصول اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں،جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے ، کیا اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے،

ایمرجنسی اور جنگ کی صورتحال میں تو ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو سکتا ہے، جسٹس منیب اختر
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم ماضی میں سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مثالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ماضی کی ایسی مثالوں کے الگ حقائق ،الگ وجوہات تھیں، وکیل درخواست گزار نے کہا کہ شفاف ٹرائل کی بھی شرائط ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایف بی علی؛ بریگیڈیر فرخ بخت علی کیس کہتا ہے کہ کسی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے،یہ کیس سویلین کے اندر تعلق کی بات کرتا ہے،آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مطابق یہ کون سا تعلق ہو گا،جس پر ٹرائل ہو گا،وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو گا وہ آئینی ترمیم سے ہی ہو سکتا ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہوا میں بات کر رہے ہیں ٹو ڈی ٹو کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں اس پر معاونت کرنی ہے،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایمرجنسی اور جنگ کی صورتحال میں تو ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو سکتا ہے،وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کا اکثریتی فیصلہ بھی یہ ہی شرط عائد کرتا ہے کہ جنگی حالات ہوں تک ہو گا،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صرف جنگ اور جنگی حالات میں کسی شخص کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے؛ جب بنیادی حقوق معطل نہ ہوں تو سویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا؛ ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہمارا ائین، ہمارے بنیادی حقوق، ہمارے قوانین سب ارتقائی مراحل سے گزر کر مختلف ہو چکے ہیں اب ہمارے آئین میں آرٹیکل 10-A شامل ہے جس کو دیکھنا ضروری ہے ؛ آئین کا آرٹیکل 175 تھری جوڈیشل سٹرکچرکی بات کرتا ہے آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں ،یہ تمام آرٹیکل بھلے الگ الگ ہیں مگر آپس میں ان کا تعلق بنتا ہے،بنیادی حقوق کا تقاضا ہے کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت تعینات جج ہی ٹرائل کنڈکٹ کرے سویلین کا کورٹ مارشل ٹرائل عدالتی نظام سے متعلق اچھا تاثر نہیں چھوڑتا ،کسی نے بھی خوشی کے ساتھ اس کی اجازت نہیں دی فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے ملک میں بے چینی کی کیفیت ہو گی ایف آئی آر میں کہیں بھی افیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہیں کیا گیا،آرمی سپورٹس سمیت مختلف چیزوں میں شامل ہوتی ہے،اگر وہاں کچھ ہو جائے تو کیا آرمی ایکٹ لگ جائے گا،

اگر مورال متاثر ہوتا ہے تو اس کا فائدہ بھی دشمن کو ہو گا،چیف جسٹس
عزیر بھنڈاری نے سیکشن ٹو ڈی پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب آپ آرمی والے کی بات کرتے ہیں تو اس کی سب اہم چیز مورال ہوتی ہے،اگر مورال متاثر ہوتا ہے تو اس کا فائدہ بھی دشمن کو ہو گا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق تب ہوتا ہے جب کوئی ایسی چیز ہو جس سے دشمن کو فائدہ پہنچے؛

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا آفیشل سیکرٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے؟ ،وکیل درخواست گذار نے کہا کہ جی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے ایف آئی آر میں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کازکر ہی نہیں ہے،ایکٹ میں ترمیم کےذریعے تحفظ پاکستان ایکٹ کو ضم کرکے انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں،2017 میں ترمیم کرکے 2 سال کی انسداد دہشتگردی کی دفعات کو شامل کیا گیا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شواہد کے بغیر کیسے الزامات کو عائد کیا جاتا ہے؟ یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے، سقم قانون میں ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ کیا الزام لگایا گیا یہ تفصیل موجود ہی نہیں، ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ شاعر احمد فراز کے مقدمے میں جسٹس افضل ظلہ نے کی چونکہ ان پر باقاعدہ فرد جرم عائد نہیں کی گئی اس لئے ان کو ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا؛چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرمی اتھارٹیز کسی شخص کو چارج کئے بغیر کیسے گرفتار کر سکتی ہیں؛ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت تفتیش کیسے ہو گی اور فرد جرم کیسے لگے گی؟ ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ آرمی ایکٹ اس حوالے سے نامکمل ہے؛ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت تو ملزمان پر کوئی چارج ہی نہیں ہے؛

اٹارنی جنرل سے تفصیلات مانگی تھیں امید ہے وہ والدین کیلئے تسلی بخش ہوں گی،چیف جسٹس
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایف آئی آر انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت ہوئی مگر ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو رہا ہے ، عزیر بھنڈاری کی جانب سے شاعر احمد فراز اور سیف الدین سیف کیس کے حوالے دیئے گئے،اور کہا گیا کہ احمد فراز پر الزام لگا تھا مگر ان جو باضابطہ چارج نہیں کیا گیا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سمجھ سے باہر ہے کہ جب کسی کیخلاف ثبوت نہیں تو فوج اسے گرفتار کیسے کر سکتی ہے؟ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک مجسٹریٹ بھی تب تک ملزم کے خلاف کاروائی نہیں کر سکتا جب تک پولیس رپورٹ نہ آئے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی کخلاف شواہد نہ ہونے پر کاروائی کرنا تو مضحکہ خیز ہے، وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ جو افراد غائب ہیں ان کے اہلخانہ شدید پریشانی کا شکار ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل سے تفصیلات مانگی تھیں امید ہے وہ والدین کیلئے تسلی بخش ہوں گی،وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میرے موکل چیئرمین پی ٹی آئی کے مطابق تو آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کا فیصلہ ہی بد نیتی پر ہے، چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی پر موقف دینے کی بھی پابندی ہے،میڈیا پر نہیں چلتا،کچھ مستند آوازیں ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر شکوک شبہات کا اظہار کر رہیں ہیں،ہماری استدعا ہے کہ اوپن ٹرائل کیا جائے ،چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری کے دلائل مکمل ہو گئے درخواستگزار زمان وردک نے تحریری دلائل جمع کروا دیے

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آرمی افسران کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کسی شخص پر شواہد کے بغیر الزام لگانا بے کار ہے ، اٹارنی جنرل ہم نے ایسی معلومات منگوائی ہیں جو تمام والدین کے لیے فائدہ مند ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ان مقدمات میں تو ملزمان پر الزام ہی نہیں تھا ،ان مقدمات میں ملزمان پر پاکستان پینل کوڈ کے الزامات ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ تو سمجھ آتی ہے کہ پہلے گرفتار کرتے ہیں پھر تحقیقات کرتے ہیں، عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اس کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں، تسلیم شدہ حقائق سے بدنیتی اخذ کی جا سکتی ہے ، چیئرمین پی ٹی آئی کا میڈیا پر مکمل بین یے،اوپن پبلک ٹرائل ہونا چاہیئے صحافیوں کو ٹرائل کی رپورٹنگ کی اجازت ہونی چاہیے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملزم کی تعریف نہیں کی گئی، سپریم کورٹ نے 1975 کے فیصلے میں طے کیا کہ جوڈیشل سائیڈ پر طے ہو گا ملزم کون ہے ،

102 ملزمان ملٹری تحویل میں،ہفتے میں ایک ملاقات ہو گی،اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل کے دلائل شروع ہو گئے ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اپنی تحریری معروضات کے ساتھ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کی معلومات فراہم کروں گا،میں ایف آئی آر میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہ ہونے پر بھی معاونت کروں گا ،ملزمان کی کسٹڈی لیتے وقت الزامات بھی فراہم کردیے تھے ،9 مئی کا واقعہ تھا جس کے بعد 15 دن لیے گئے پھر ملزمان کی حوالگی کا عمل ہوا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت چارج کرنے کا طریقہ رولزمیں ہے،؟۔ کیا آپ آج اپنے تحریری دلائل جمع کروائیں گے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تحریری دلائل وقفہ کے بعد جمع کروا دوں گا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ سے معروضات کی تفصیل بھی مانگی تھی،اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ اس وقت 102 ملزمان ملٹری تحویل میں ہیں،تحویل میں موجود ملزمان کو گھر والوں سے فون پر بات کرنے کی اجازت دی جائے گی،والدین بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کو ہفتے میں ایک بار ملاقات کی اجازت ہو گی ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں نے کچھ جیلوں کا دورہ کیا وہاں بھی ملزمان کو فون پر بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کو جو کھانا دیا جاتا ہے وہ عام حالات سے کافی بہتر ہے،کھانا محفوظ ہے یا نہیں اس کا ٹیسٹ تو نہیں ہوتا مگر وہ کھانا کھانے سے کسی کو کچھ ہوا تو ذمہ داری بھی شفٹ ہو جائے گی،جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیوں خفیہ رکھا جا رہا کہ 102 ملزمان کون سے ہیں ،کیا ہم 102 افراد کی لسٹ کو پبلک کر سکتے ہیں،اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ جی نہیں ابھی وہ زیر تفتیش ہیں،

کیا موجودہ کیسز میں سزائے موت کا کوئی ایشو ہے،چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے سوال
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سادہ سوال ہے کیوں حراست میں موجود لوگوں کی فہرست بپلک نہیں کر دیتے،جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ پہلے یقینی بنائیں کہ زیر حراست افراد کی اپنے والدین سے بات ہو جائے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عید پر ہر کسی کو پتہ ہونا چاہیے کہ کون کون حراست میں ہے،عید پر سب کی اپنے گھر والوں سے بات ہونی چاہیے،اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ فہرست پبلک کرنے کے حوالے سے ایک گھنٹے تک چیمبر میں آگاہ کر دوں گا،صحت کی سہولیات سب زیر حراست ملزمان کو مل رہی ہیں ڈاکٹرز موجود ہیں، صحافیوں اور وکلا کے حوالے سے کچھ واقعات ہوئے ہیں ریاض حنیف راہی سے کل بات بھی کی،ان کی شکایات کا ازالہ ہو گا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا موجودہ کیسز میں سزائے موت کا کوئی ایشو ہے، اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ سزائے موت غیر ملکی رابطوں کی صورت میں ہو سکتی ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم دیا کہ ملزمان کی آج ہی اہلخانہ سے بات کروائیں، اب ہم عید کے بعد ملیں گے، جو لوگ گرفتار ہیں ان کا خیال رکھیں، کتنی خوشی کی بات ہوگی کہ عمران ریاض عید پر اپنے اہلخانہ کے ساتھ ہوں،

عمران ریاض ہماری حراست میں نہیں ،ریکوری کی پوری کوشش کی جا رہی ہے،اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ کوئی وکلاء گرفتار نہیں ہیں ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وکلاء کے ساتھ کوئی بد سلوکی ہوئی تو تحفظ فراہم کریں، صحافیوں کا بتائیں، اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ جانتا ہوں ایک صحافی مسنگ ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ عمران ریاض کی بات کر رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ وہ ہماری حراست میں نہیں ہے ان کی ریکوری کی پوری کوشش کی جارہی ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئےکہا کہ اپنی صلاحیتوں سے یقینی بنائیں عمران ریاض کا پتہ لگائیں،

وکلا نے ملٹری کورٹس کے خلاف حکم امتناعی کی استدعا کی،اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ ابھی کوئی ٹرائل شروع نہیں ہوا اور اس میں وقت بھی لگتا ہے،ملزمان کو پہلے وکلا کی خدمات لینے کا وقت ملے گا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کچھ ہوا مجھے فوری اگاہ کیا جائے، میں آئندہ ہفتے سے دستیاب ہوں گا، خواتین اور بچوں کا خصوصی خیال رکھا جائے، سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر حکم امتناع دینے کی استدعا مسترد کر دی،

فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف اعتزاز احسن نے درخواست دائر کی
واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف اعتزاز احسن نے درخواست دائر کی ، دائر درخواست میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی گئی ،اعتزاز احسن کی طرف سے وکیل سلمان اکرم راجہ نے درخواست دائر کی، سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ وفاقی حکومت کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر رپڑ اسٹمپ کا کردار ادا کیا۔سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے آرمی ایکٹ کا سیکشن 94 اور 1970 کے رولز غیر مساوی ہے۔سیکشن 94 اور رولز کا بھی غیرآئینی قرار دیا جائے انسداد دہشت گرد عدالتوں کے ملزمان کو عسکری حکام کے حوالے کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، عسکری حکام کے حراست میں دئیے سویلین کی رہائی کا حکم دیا جائے ،سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں شہباز شریف، خواجہ آصف، رانا ثناءاللہ، عمران خان، پانچوں آئی جیز، تمام چیف سیکرٹریز، وزارت قانون، داخلہ، دفاع، کابینہ ڈویژن کو فریق بنایا گیا ہے

 کسی سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں ہونا چاہیے

کرپشن کا ماسٹر مائنڈ ہی فیض حمید ہے

برج کھیل کب ایجاد ہوا، برج کھیلتے کیسے ہیں

عمران خان سے اختلاف رکھنے والوں کی موت؟

حضوراقدس پر کوڑا بھینکنے والی خاتون کا گھر مل گیا ،وادی طائف سے لائیو مناظر

برج فیڈریشن آف ایشیا اینڈ مڈل ایسٹ چیمپئن شپ مہمان کھلاڑی حویلی ریسٹورنٹ پہنچ گئے

کھیل سے امن کا پیغام دینے آئے ہیں.بھارتی ٹیم کے کپتان کی پریس کانفرنس

وادی طائف کی مسجد جو حضور اقدس نے خود بنائی، مسجد کے ساتھ کن اصحاب کی قبریں ہیں ؟

9 مئی کے بعد زمان پارک کی کیا حالت ہے؟؟

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں جلاؤ گھیراؤ ہوا، تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے فوجی تنصیبات پر حملے کئے گئے، حکومت کی جانب سے فیصلہ ہواکہ حملے کرنیوالے تمام شرپسندوں کے مقدمے ملٹری کورٹ میں چلائے جائیں گے

Leave a reply