یہ بہت بڑی غلط فہمی ہوئی لوگوں کو کہ اسلام نے کوئی نظامِ حکومت ہی نہیں دیا ، ایسا ہرگز نہیں ہے ۔
اسلام نے بس اتنا کیا ہے کہ انتخاب حاکم کی حد تک مختلف آپشنز کو کھلا رکھا ، لیکن اس حاکم کو بھی طریق حکومت میں ہرگز مادر پدر آزاد نہیں چھوڑا ۔
اور حاکم کا اگر عوامی انتخاب کیا جائے گا تو اس میں بھی لوگوں کو پابند کیا اور نظائر سے واضح کیا کہ معیار کیا ہونا چاہیے ۔
اور کوئی حاکم انتخاب کے بغیر بھی سریر آرائے سلطنت ہو جاتا ہے تو اسے پابند رکھا کہ وہ ان امور کا خیال رکھے گا ۔یہی وجہ تھی کہ اموی اور عباسی دور حکومت میں ہرگز خلیفہ یا بادشاہ کی زبان سے نکلے الفاظ کو قانون نہیں سمجھا جاتا تھا جیسا کہ بعد میں عثمانی دور میں اور ہمارے ہاں برصغیر کی بادشاہت میں نظر آتا ہے ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ان ابتدائی ادوار میں خلیفہ کے کسی اقدام کو اگر کسی نے چیلنج کیا ، یا اس کے دربار میں روکا اور ٹوکا تو بنیاد قران و سنت کے احکام کو ہی بنایا ۔
اسی طرح اگر جمہوریت میں حکمران کا انتخاب ہوتا ہے تو بھی عوام اور حکام اس انتخاب میں مکمل آزاد نہیں ہیں ۔ بطور مثال ایک ضابطہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک معزز بزرگ نے کسی علاقے کی امارت طلب کی تو آپ نے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ ہم طلب پر عہدے نہیں دیتے ۔۔۔۔یوں یہ اصول طے پا گیا کہ طلبگار کو عہدہ دینا خلاف ضابطہ ہے ۔ یہ صرف ایک مثال ہے وگرنہ نظام امارت و حکومت کا مکمل طریقہ اسلام کے ہاں موجود ہے ۔
اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اسلام نے کوئی نظامِ حکومت نہیں دیا ۔
اسلام نے جزیات تک پر بحث کی ہے اور یہ تک طے کر دیا ہے کہ حاکم کا لباس کیسا ہو گا ، اسے عوام کے سامنے کیسے جانا ہے ، ملکی خزانے کے ساتھ اس کا رشتہ کیا ہو گا ، اور اس کی ذمے داری کہاں سے کہاں تک ہو گی ، عوام کے حقوق اس پر کیا ہوں گے اور مملکت پر کیا ۔