اردو زبان کے معروف شاعرعشرت رومانی
سوچا تمہیں تو درد کی صدیاں پگھل گئیں
دیکھا تمہیں تو وقت کے دریا ٹھہر گئے
اردو زبان کے شاعرعشرت رومانی کا اصل نام سید محمد عشرت ہے بھارت میں سید محمد عقیل کے گھر 01 جنوری 1936ء کو پیدا ہوئے
شاعری کی ابتدا 1950ء میں کی پہلی نظم 1958ءمیں ماہنامہ شمع میں شائع ہوئی ،پہلی غزل کی اشاعت 1960 میں ادبِ لطیف، لاہور میں ہوئی 25 اپریل 2021ء کو خلاق حقیقی سے جا ملے-
تصنیفات
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)چند ہم عصر افسانہ نگار ،2004ء-2004
۔ (2)شعور عصر-2002
۔ (3)صبح آنے کو ہے-2000
مستقل پتا:بی۔ 14بلاک سی، رابعہ ڈپلیکس اسکیم 33
گلزار ہجری مین یونیورسٹی روڈ
ڈاکخانہ کراچی یونیورسٹی کراچی
غزل
۔۔۔۔۔
بچھڑ کے ہم سے ملنا چاہتی ہے
محبت اور کیا کیا چاہتی ہے
کسی صحرائے وحشت میں اتر کر
محبت خود سمٹنا چاہتی ہے
جسے سورج نے جھلسایا ہے برسوں
وہی کونپل پنپنا چاہتی ہے
کوئی موج بلا ہے اور تنہا
سمندر کو نگلنا چاہتی ہے
جھلستے سورجوں کی بھٹیوں میں
ہر اک ساعت پگھلنا چاہتی ہے
کوئی زخمی پرندہ مر رہا ہے
بصارت منہ چھپانا چاہتی ہے
سمندر شب اترنے کو ہے عشرتؔ
یہ بستی ڈوب جانا چاہتی ہے
غزل
۔۔۔۔۔
بارش ہوئی تو شہر کے تالاب بھر گئے
کچھ لوگ ڈوبتے ہوئے دھل کر نکھر گئے
سورج چمک اٹھا تو نگاہیں بھٹک گئیں
آئی جو صبح نو تو بصارت سے ڈر گئے
دریا بپھر گئے تو سمندر سے جا ملے
ڈوبے جو ان کے ساتھ کنارے کدھر گئے
دلہن کی سرخ مانگ سے افشاں جو گر گئی
لمحوں کی شوخ جھیل میں تارے بکھر گئے
پھر دشت انتظار میں کھلنے لگے کنول
پلکوں سے جھانکتے ہوئے لمحے سنور گئے
بجھتے ہوئے چراغ ہتھیلی پہ جل گئے
جھونکے تمہاری یاد کے دل میں اتر گئے
سوچا تمہیں تو درد کی صدیاں پگھل گئیں
دیکھا تمہیں تو وقت کے دریا ٹھہر گئے
تم تو بھری بہار میں کھلتے رہے مگر
ہم زخم کائنات تھے کانٹوں سے بھر گئے
عشرتؔ شب نشاط کے جگنو لئے ہوئے
ہم جشن زر نگاہ میں پریوں کے گھر گئے
غزل
۔۔۔۔۔
موسم زرنگاہ آوارہ
کاروان بہار آوارہ
شاخ در شاخ پھول شرمائے
ہو گئی ہے بہار آوارہ
شہر در شہر یوں بھٹکتا ہوں
جیسے ہو تیرا پیار آوارہ
یوں سر راہ ایک پھول کھلا
جیسے اک شاہکار آوارہ
اس طرح دیس دیس پھرتے ہیں
جیسے ابر بہار آوارہ