پی ٹی آئی احتجاج،کیا حکومت صرف بڑھکیں مارنے کیلیے ہے؟
پاکستان میں گزشتہ چند دنوں سے احتجاجی تحریک نے سیاسی اور سماجی کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔پی ٹی آئی نے عمران خان کی رہائی کے لئے اسلام آباد کی جانب احتجاج کا اعلان کیا، جس کے بعد اسلام آباد اور پنجاب میں جاری ان احتجاجات نے حکومت کی حکمت عملی پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔
پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں ڈی چوک تک پہنچ چکے ہیں،پرتشدد احتجاج کے دوران تین رینجرز اہلکار ،دو پولیس اہلکار شہید ہوئے،حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کیں، راستے بند کئے، کینیٹینر لگائے،اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کیا، اس کے باوجود پی ٹی آئی مظاہرین ڈی چوک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، احتجاجی شرپسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور ان کی جانب سے اہم مقامات تک پہنچنا اس بات کا غماز ہے کہ حکومت اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں پولیس اور فوج کے جوانوں کی شہادتیں اور زخمی ہونے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
اسلام آباد میں جاری احتجاجی تحریک نے شہر کے متعدد علاقوں کو بند کر رکھا تھا، اور کنٹینرز کی مدد سے سڑکوں کی ناکہ بندی کی گئی تھی۔ اس کے باوجود، احتجاجی گروہ ڈی چوک تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، جس پر حکومت کی حکمت عملی پر شدید سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ احتجاجی تحریک کے شرپسند ایک ایک انچ آگے بڑھتے رہے، اور حکومت کی جانب سے صرف بیانات اور بڑھکیں دینے کے سوا کوئی مؤثر کارروائی نظر نہیں آئی۔
مختلف سیاسی رہنماؤں، تجزیہ کاروں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال نے حکومتی رٹ کو ایک بڑا دھچکہ پہنچایا ہے۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ حکومت نے اس تماشے کے لیے کنٹینرز کیوں لگائے؟ اگر سڑکیں بند کی گئی تھیں اور راستے روکے گئے تھے، تو ان اقدامات کا کیا مقصد تھا؟ اور یہ تمام انتظامات کس لیے کیے گئے جب احتجاجی شرپسند ایک کے بعد ایک قدم آگے بڑھتے رہے؟اسلام آباد سے داخلی و خارجی راستوں کو بندش، میٹرو بند، ریلوے سٹیشن بند، ہوٹلز،گیسٹ ہاؤس بند،اس سب اقدامات کے باوجود سوال اٹھتا ہے کہ حکومت نے کیا حکمت عملی اختیار کی؟ اسی دوران، پولیس اور رینجرز کے جوانوں کی شہادت اور زخمی ہونے کے واقعات نے عوام کے ذہنوں میں مزید شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں۔ ان تمام واقعات نے حکومت کی بے بسیت اور بے تدبیری کو اجاگر کیا ہے۔
حکومت کی جانب سے بار بار یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ احتجاجی تحریک کے پیچھے "خفیہ ہاتھ” کارفرما ہیں، لیکن اب یہ بیانات بے کار ثابت ہو رہے ہیں۔ عوام کے ذہنوں میں یہ سوالات ابھرنے لگے ہیں کہ اگر حکومت اس قدر کمزور ہے کہ وہ چند کلومیٹر کے علاقے کو بھی کنٹرول نہیں کر سکتی، ایک طرف احتجاجی تحریک کی شدت بڑھتی جا رہی ہے، دوسری طرف حکومت کی طرف سے نہ کوئی موثر حکمت عملی سامنے آ رہی ہے اور نہ ہی کوئی حقیقی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ چند دنوں سے حکومت کے اعلیٰ عہدیدار محض بیانات دے رہے ہیں، جب کہ عوام کی حفاظت کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ ولیس کے جوانوں کی قربانیاں ہو رہی ہیں، دوسری طرف حکومت محض خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔اگر حکومت یاست کی رٹ کو قائم نہیں رکھ سکتی،عوام کا تحفظ فراہم نہیں کیا جا سکتا، تو ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ حکومت کا کام کیا ہے؟ کیا یہ حکومت صرف بڑھکیں مارنے اور بیانات دینے کے لیے ہے، یا پھر اسے عملی اقدامات بھی کرنے ہوں گے؟ ریاست کی طاقت کو محض شوپیس کی طرح نہیں رکھا جا سکتا، بلکہ اسے حقیقی چیلنجز کے سامنے ثابت کرنا ہوگا۔
موجودہ حالات واقعی حکومت کی مکمل ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت عملی اقدامات کرے، نہ کہ صرف بیانات دے کر حالات کو نظر انداز کرے۔9مئی کے واقعے سے بڑا واقعہ رونما ہو چکا، حکومت اب تک کیا کرتی رہی، بلوائیوں نے پاکستان کو پہلے بھی نقصان پہنچایا اب بھی پہنچا رہے ہین، بشریٰ بی بی کی قیادت میں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کیا جا رہا ہے، ایسے میں حکومت کو سخت ردعمل ،فوری ایکشن کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے………
پی ٹی آئی مظاہرین کا ڈی چوک پر خاتون صحافی قراۃ العین شیرازی پر تشدد
انتشار،بدامنی پی ٹی آئی کا ایجنڈہ،بشریٰ بی بی کی "ضد”پنجاب نہ نکلا
9 مئی سے کہیں بڑا 9 مئی ساتھ لئےخونخوار لشکر اسلام آباد پہنچا ہے،عرفان صدیقی
پی ٹی آئی مظاہرین ڈی چوک پہنچ گئے
آئی جی کو اختیار دے دیا اب جیسے چاہیں ان سے نمٹیں،وزیر داخلہ
اسلام آباد،تین رینجرز اہلکار شہید،سخت کاروائی کا اعلان
عمران کے باہر آنے تک ہم نہیں رکیں گے،بشریٰ کا خطاب
کوئی مجھے اکیلا چھوڑ کر نہیں جائے گا، بشریٰ بی بی کا مظاہرین سے حلف
میں جیل میں،اب فیصلے بشریٰ کریں گی،عمران خان کے پیغام سے پارٹی رہنما پریشان
پی ٹی آئی احتجاج، بشریٰ کا مشن کامیاب، سیاست میں باضابطہ انٹری،علیمہ "آؤٹ”