روسی صدر کا 24 برس بعد شمالی کوریا کا دورہ،امریکا کا اظہار تشویش

0
64
russian

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن شمالی کوریا کے دو روزہ دورے پر پیانگ یانگ پہنچ گئے ہیں

روسی صدر کے پیانگ یانگ پہنچنے پر شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے خیر مقدم کیا، روسی صدر کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، روسی صدر اور شمالی کوریا کے رہنما ایک ہی گاڑی میں ایئر پورٹ سے ہوٹل تک گئے،غیرملکی میڈیا کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے 24 سال بعد دورہ شمالی کوریا سے قبل پیانگ یانگ کی سڑکوں کو روسی جھنڈوں اور پوسٹروں سے سجایا گیا تھا،روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا ہے کہ ماسکو اور پیانگ یانگ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کریں گے۔

1999 میں روس کے صدر بننے کے اگلے ہی سال ولادیمیرپوتن شمالی کوریا گئے تھے۔ روسی صدر نے کم جونگ ان کے والد کم جونگ ال سے ملاقات کی تھی ولادیمیرپوتن اب 24 سال بعد شمالی کوریا کا دورہ کر رہے ہیں۔

روسی صدر کے دورہ شمالی کوریا کے حوالہ سے غیر ملکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ روس اور شمالی کوریا عالمی تنہائی کا شکار ہونے کی وجہ سے مختلف معاہدے سائن کر سکتے ہیں، روس یوکرین کے خلاف اپنی جنگ برقرار رکھنے کے لیے پیانگ یانگ سے ہتھیار حاصل کر سکتا ہے،روسی صدر کے دورہ شمالی کوریا سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات مزید مضبوط ہوں گے.

روسی صدر کے دورہ شمالی کوریا پر امریکہ کا بھی ردعمل سامنے آیا ہے،امریکی حکومت نے روسی صدر کے دورہ شمالی کوریا پر تشویش کا اظہار کیا ہے،امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان پیٹ رائڈر کا کہنا ہے کہ روس اور شمالی کوریا کے درمیان گہرے تعاون پر تشویش کی ضرورت ہے،خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو جزیرہ نما کوریا میں امن اور استحکام کو برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔لیکن روسی جارحیت کے خلاف لڑنے والے یوکرین کے لوگوں کی حمایت کرنا بھی چاہتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان کا کہنا ہے کہ روس شمالی کوریا کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی کی وجہ سے یوکرین میں جنگ چھیڑنے میں کامیاب ہوا،ہم اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ کسی بھی ملک کو ولادیمیرپوتن کو اس جارحانہ جنگ کو فروغ دینے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرنا چاہیے جو ہم یوکرین اور روس کے درمیان دیکھ رہے ہیں۔ یہ جنگ واضح طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے اور بین الاقوامی نظام کو کمزور کر رہی ہے۔

مبصرین کے مطابق اس دو روزہ دورے میں دیگر چیزوں کے علاوہ پیانگ یانگ سے ہتھیاروں کی سپلائی پر توجہ دی جائے گی، جسے روس یوکرین کے خلاف اپنی جنگ میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔

Leave a reply