جلد آ کہ تری یاد گلا گھونٹ رہی ہے

اصلی نام:مرزا محمد اقبال
0
28
machas

بیوی کی بھی جوتی کے تلے ہوئے غائب
شوہر کے اگر سر سے ہوئے بال ندارد

ماچس لکھنوی

اصلی نام:مرزا محمد اقبال
سن ولادت:1918ء
جائے ولادت:لکھنؤ، اتر پردیش
تاریخ وفات:26 اگست 1970ء
جائے ولادت:لکھنؤ، اتر پردیش
تصنیفات:انتخابِ کلام ماچس لکھنوی-2004ء
(مرتبہ:رئیس آغا)

ماچسؔ لکھنوی نامور مزاحیہ شاعر حضرت ماچس لکھنوی کا اسم گرامی مرزا محمد اقبال تھا۔ ماچسؔ لکھنوی کے نام سے مشہور ہیں۔ 1918 میں اپنے آبائی مکان متصل کاظمین لکھنؤ گیٹ میں پیدا ہوئے اور 26 اگست 1970 کو مختصر علالت کے بعد بعارضۂ کینسر وفات پائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تذکرۂ معاصرین جلد اول مصنف مالک رام کے مطابق سنولادت 1911ء ہے۔

ہزل
۔۔۔۔۔
جب کہ ماضی سے بہت پست بھی حال اچھا ہے
پھر تو مستقبل رنگیں کا خیال اچھا ہے
جس کا جو ذوق ہو اس کو وہی آتا ہے پسند
میں تو کہتا ہوں کہ دونوں کا خیال اچھا ہے
کچھ الیکشن میں تو کچھ نام پہ غالبؔ کے کماؤ
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
چارہ گر کہتے ہیں بس موت کی باقی ہے کسر
اور ہر طرح سے بیمار کا حال اچھا ہے
نہیں معلوم اگر سانپ کا منتر تو نہ پھنس
ہاتھ اس سانپ کی بانبی میں نہ ڈال اچھا ہے
جو بھی ہارے گا وہی گالیاں دے گا اس کو
جس برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
ڈھونڈئیے خیر سے جا کر کوئی موٹی سسرال
ہاتھ جو مفت میں آئے تو وہ مال اچھا ہے
بین ہی بین گزرتے رہو اس وادی سے
نہ حرام اچھا ہے بالکل نہ حلال اچھا ہے
ایک ہم تھے جو سیاست میں کما پائے نہ کچھ
ورنہ ماضی کے فقیروں کا بھی حال اچھا ہے
جتنے ہیں دہر میں ہاتھوں کی صفائی کے کمال
سب سے اے دوست گرہ کٹ کا کمال اچھا ہے
جس کی بچپن ہی میں شادی ہو وہ کیا جانے غریب
عشق میں ہجر ہے بہتر کہ وصال اچھا ہے
اور تو کچھ بھی نہیں حضرت ماچسؔ لیکن
آپ میں آگ لگانے کا کمال اچھا ہے

ہزل
۔۔۔۔۔
شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
کچھ ہوتا رہے گا یوں ہی ہر سال ندارد
تبت کبھی غائب کبھی نیپال ندارد
رومال جو ملتے تھے تو تھی رال ندارد
اب رال ٹپکتی ہے تو رومال ندارد
تحقیق کیا ان کا جو شجرہ تو یہ پایا
کچھ یوں ہی سی ننھیال ہے ددھیال ندارد
ہے اس بت کافر کا شباب اپنا بڑھاپا
ماضی ہے ادھر گول ادھر حال ندارد
تعداد میں ہیں عورتیں مردوں سے زیادہ
قوالیاں موجود ہیں قوال ندارد
بیوی کی بھی جوتی کے تلے ہو گئے غائب
شوہر کے اگر سر سے ہوئے بال ندارد

ہزل
۔۔۔۔۔
آنکھیں نکل آئی ہیں مری سانس رکی ہے
جلد آ کہ تری یاد گلا گھونٹ رہی ہے

دعوت کی تری بزم میں کیوں دھوم مچی ہے
کیا بات ہے کیا کوئی نئی جیب کٹی ہے
واعظ کو جو دیکھو تو گھٹا ٹوپ اندھیرا
ساقی کو جو دیکھو تو کرن پھوٹ رہی ہے
کیا ہے جو نہیں یہ اثر ربط محبت
روئے تو ہیں وہ اور مری آواز پڑی ہے
سائے کی تمنا میں جہاں بیٹھ گیا ہوں
چندیا پہ وہیں تاک کے دیوار گری ہے
چھوٹے نہیں چھٹتی ہے ترے وصل کی حسرت
یہ جونک مرے دل کا لہو چوس رہی ہے
وہ ان کا زمانہ تھا جہاں عقل بڑی تھی
یہ میرا زمانہ ہے یہاں بھینس بڑی ہے
پھر کیا ہے جو ماچسؔ نہیں یہ سوز محبت
اک برق سی رگ رگ میں مرے کوند رہی ہے

Leave a reply