برطانوی جوڑے کی افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں گرفتاری، بچے رہائی کی اپیل کر رہے ہیں
برطانوی جوڑا پیٹر اور باربی رینولڈز، جو افغانستان میں تعلیمی پروگرامز چلاتے ہیں، طالبان کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد اپنے خاندان سے رابطہ کھو بیٹھا ہے۔ ان کے بچوں کا کہنا ہے کہ یہ جوڑا، جو اس وقت ستر کی دہائی میں ہے،جوڑے کے بچوں نے طالبان سے درخواست کی ہے کہ پیٹر اور باربی رینولڈز کو رہا کیا جائے۔ ان کے بچوں کے مطابق یہ جوڑا 2021 میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد بھی افغانستان میں رہ کر وہاں تعلیمی اور تربیتی پروگرامز چلاتا رہا ہے۔
یہ جوڑا "ری بلڈ” نامی تنظیم چلاتا ہے جو کاروبار، حکومتی اداروں، تعلیمی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے لیے تعلیم اور تربیت فراہم کرتی ہے۔ سنیڈے ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، اس تنظیم کا ایک منصوبہ ماؤں اور بچوں کے لیے بھی تھا، جس کا مقصد طالبان کے تحت خواتین کی تعلیم اور سرگرمیوں پر عائد پابندیوں کا جواب دینا تھا۔ان بچوں نے طالبان کو ایک خط میں لکھا کہ، "ہمارے والدین ہمیشہ اپنے کام اور موجودگی کے بارے میں کھلے تھے اور وہ جو قوانین بدلتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہوئے ان پر عمل کرتے ہیں۔ انہوں نے افغانستان کو اپنا وطن منتخب کیا ہے، نہ کہ انگلینڈ میں اپنے خاندان کے ساتھ، اور وہ اپنی زندگی کا باقی حصہ افغانستان میں گزارنا چاہتے ہیں۔””ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے والدین کو رہا کریں تاکہ وہ دوبارہ اپنے کام کی جانب لوٹ سکیں، جو افغانستان کے عوام کی خدمت اور تعلیم کے حوالے سے ہے، جس کی آپ نے پہلے حمایت کی تھی۔”
جوڑے کے بچوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے والدین نے برطانوی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کے معاملے میں مداخلت نہ کرے۔ برطانوی وزارت خارجہ نے اس معاملے پر کسی بھی تبصرے سے گریز کیا ہے۔
ری بلڈ تنظیم نے کہا کہ یہ جوڑا اپنے گھر سے نیائک علاقے، مرکزی بامیان صوبے میں، ایک دوسرے غیر ملکی اور ایک افغان کے ساتھ طالبان کے حکام کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ تنظیم کے مطابق، یہ جوڑا دو سال سے زیادہ عرصہ تک بامیان میں رہ رہا تھا اور ان کے پاس افغان شناختی کارڈز بھی تھے۔تنظیم نے مزید بتایا کہ طالبان نے پہلے ان کے گھر کی تلاشی لی اور جوڑے کو کابل لے جایا تھا، پھر انہیں دوبارہ بامیان واپس بھیجا گیا۔ بعد میں کابل سے ایک وفد بامیان آیا اور دوبارہ جوڑے کو کابل لے گیا۔ اس وقت انہیں گرفتار کیے ہوئے 17 دن گزر چکے ہیں اور اب تک ان کی حالت کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔طالبان حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی ردعمل نہیں آیا ہے۔