قومی تاریخ میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنہیں صرف یاد کرنا کافی نہیں ہوتا، بلکہ اُن کے کردار کو سمجھنا اور اُن کی اقدار کو اپنانا وقت کی ضرورت بن جاتا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کا شمار انہی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آج ان کا 133واں یومِ ولادت ہے، مگر ہماری قومی یادداشت میں ان کی جو جگہ ہونی چاہیے، وہ کہیں دھندلی دکھائی دیتی ہے۔ جس قوم کی بنیاد میں خواتین کا خون، عزم اور کردار شامل ہو، وہی قوم آج ان عظیم خواتین کو صرف ایک تصویر یا رسمی تقریب تک محدود کر کے بھول چکی ہے۔
محترمہ فاطمہ جناح محض قائداعظم محمد علی جناح کی بہن نہ تھیں، وہ ان کے مشن کی رازدار، ہم قدم اور نظریاتی رفیق تھیں۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں جب برصغیر کی مسلمان خواتین گھروں تک محدود تھیں، سیاست، تعلیم اور سماجی خدمات کے میدان میں قدم رکھا۔ اُنہوں نے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ 1923 میں کلکتہ سے ڈینٹل سرجری میں سند لے کر پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ مگر جب انہیں اندازہ ہوا کہ بھائی کی سیاسی جدوجہد ایک نیا رخ اختیار کر چکی ہے، تو انہوں نے اپنے کلینک کو خیرباد کہہ کر خود کو مکمل طور پر تحریکِ پاکستان کے لیے وقف کر دیا۔
ان کی جدوجہد کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ خاموش مزاحمت کا استعارہ تھیں۔ جلسوں میں خواتین کو منظم کرنے، سیاسی شعور بیدار کرنے اور قائداعظم کے پیغام کو عام کرنے کے لیے انہوں نے جو کردار ادا کیا، وہ کسی مرد سیاسی رہنما سے کم نہ تھا۔ فاطمہ جناح نے ثابت کیا کہ قیادت خون کے رشتوں کی نہیں، کردار اور بصیرت کی محتاج ہوتی ہے۔ قائداعظم کی بیماری کے دنوں میں وہ نہ صرف ذاتی طور پر ان کی خدمت کرتی رہیں بلکہ سیاسی معاملات میں بھی ان کی معاون رہیں۔
قیام پاکستان کے بعد اُن کے کردار کا دوسرا پہلو سامنے آیا۔ انہوں نے خود کو صرف قومی یادداشت کا حصہ بننے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے سیاست میں دوبارہ قدم رکھا۔ 1965 میں جب انہوں نے ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب میں حصہ لیا تو گویا وہ جمہوریت کے لیے علمِ بغاوت بلند کر رہی تھیں۔ اگرچہ یہ انتخاب سرکاری سرپرستی میں دھاندلی کا شکار ہو گیا، لیکن عوامی سطح پر انہیں جو مقبولیت ملی، وہ ایک نئی تاریخ رقم کر گئی۔ اس انتخاب نے صرف سیاسی نہیں بلکہ سماجی سطح پر بھی نئی سوچ پیدا کی کہ ایک باوقار، تعلیم یافتہ، اصول پسند اور محب وطن خاتون ملک کی قیادت کر سکتی ہے۔
قوم نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں "مادرِ ملت” کا خطاب دیا، جو محض ایک رسمی اعزاز نہ تھا بلکہ ایک نظریاتی سچائی کا اظہار تھا۔ انہوں نے خواتین کو محض مظلوم یا محدود کردار تک نہیں رکھا، بلکہ ان میں شعور، خود داری اور خود اعتمادی پیدا کی۔ ان کی تقریریں، تحریریں اور عوامی بیانات آج بھی خواتین کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کا لباس، لہجہ اور طرزِ فکر خالصتاً مشرقی اور اسلامی اقدار کا نمائندہ تھا، جس میں جدید تعلیم کی روشنی اور سیاسی فہم کی گہرائی نمایاں تھی۔
9 جولائی 1967 کو ان کی وفات ایک ایسا باب ہے جو آج بھی مکمل طور پر بند نہیں ہوا۔ ان کی موت کے حوالے سے کئی سوالات موجود ہیں۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کی وفات طبعی نہیں بلکہ مشکوک حالات میں ہوئی، اور حکومتِ وقت نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر کے مزید شکوک پیدا کیے۔ ان کے جنازے میں لاکھوں افراد کی شرکت اس بات کا ثبوت تھی کہ عوام ان سے کتنی محبت رکھتے تھے، اور ان کی رحلت کو صرف ایک سیاسی سانحہ نہیں بلکہ قومی زوال کی علامت سمجھتے تھے۔
یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ آج کی نسل محترمہ فاطمہ جناح کے کردار اور قربانی سے واقف نہیں۔ ہماری درسی کتب میں ان کا ذکر محض ایک سطر پر محیط ہے، اور میڈیا میں بھی ان کا نام صرف مخصوص ایام میں لیا جاتا ہے۔ یہ ہماری اجتماعی غفلت کی علامت ہے۔ ایک قوم جو اپنے رہنماؤں کو بھول جائے، وہ سمت کھو بیٹھتی ہے۔ فاطمہ جناح محض ایک تاریخی شخصیت نہیں بلکہ ایک نظریہ تھیں — وہ نظریہ جو جمہوریت، انصاف، وقار اور قربانی پر مبنی تھا۔
آج اگر ہم واقعی مادرِ ملت کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں تو یہ خراج محض خطبوں یا تصویری حوالوں میں محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ فکر، عمل اور آگہی میں جھلکنا چاہیے۔ ہمیں ان کے افکار کو اپنی سماجی اور سیاسی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔ خواتین کو وہی اعتماد، وہی شعور اور وہی آزادی دینی ہوگی جس کا خواب فاطمہ جناح نے دیکھا تھا۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ان کے کردار کو نمایاں کیا جائے، میڈیا پر ان کے افکار کو روشناس کرایا جائے، اور نئی نسل کو بتایا جائے کہ ایک عورت بھی پوری قوم کی رہنما بن سکتی ہے — بشرطیکہ وہ صداقت، استقامت اور نظریاتی وفاداری کا پیکر ہو۔