یوں تو کشمیریوں کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے مگر ان قربانیوں میں سے ایک قربانی ایسی بھی ہے کہ جس سے کشمیریوں کی تحریک آزادی کشمیر کیساتھ اسلام سے محبت کی انوکھی مثال بھی ملتی ہے جس کی مثال پہلے کوئی نہیں ملتی اور اس قربانی پر دنیا عش عش کر اٹھتی ہے
13 جولائی 1931 کا دن ایک تاریخ ساز دن ہے کہ جس دن 22 کشمیریوں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر اسلام کے فریضہ اذان کو مکمل کیا اور یوں دنیا میں یہ پہلی اذان بن گئی کہ جس کی تکمیل کیلئے 22 جانیں اللہ کی راہ میں دے کر اذان کو مکمل کیا گیا
اس قربانی سے کشمیری قوم نے ثابت کر دیا کہ تحریک آزادی کا فرض ادا کرنے کیلئے فرائض اسلام پر عمل پیرا ہونا لازم ہے چاہے کوئی بھی قربانی پیش کرنی پڑے وہ دریغ نہیں کرینگے
یوم شہداء کشمیر کی مکمل تفصیل یہ ہے کہ آج سے تقریباً 89 سال قبل 25 جون 1931 کو سری نگر میں مسلمانان کشمیر نے اپنی آزادی کی خاطر ظالم قابض مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں شرکاء نے آزادی کیلئے خطاب کیا اس دوران ایک نامعلوم جوان عبدالقدیر آگے بڑھا اور سٹیج پر جا کر کشمیریوں کو قرآن و حدیث سے آزادی کیلئے ابھارا جس پر پورا مجمع پرجوش ہو کر مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف نعرے لگانے لگا اور آزادی کشمیر کے لئے مر مٹنے کو تیار ہوتا دکھائی دینے لگا اس پر سیخ پا ہو کر متعصب سرکار نے عبدالقدیر کو گرفتار کرکے اس پر بغاوت کا مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا جس پر مسلمانوں میں غم و غصہ کی شدید لہر دوڑ گئی
13 جولائی 1931 کو عبدالقدیر کو عدالت پیش کیا جانا تھا اس لئے ہزاروں کشمیری اپنے محسن عبدالقدیر کے دیدار کے جمع تھے اتنے میں نماز ظہر کا وقت ہو گیا ظاہری بات ہے اس مقدس فریضہ کی ادائیگی سے پہلے فریضہ اذان لازم ہے سو اسلام پسند غیور کشمیریوں میں سے ایک اذان کیلئے آگے بڑھا ابھی اس نے اذان شروع کی ہی تھی کہ بغض و حسد میں مبتلا ڈوگرہ سپاہی نے مؤذن پر گولی چلا دی مؤذن کے گرتے ہی دوسرا کشمیری آگے بڑھا اور آذان کہنا شروع کر دی اس ظالم و متعصب سپاہی نے پھر گولی چلائی اور مؤذن کو شہید کر دیا اتنے میں بغیر خوف اور نتیجے کی پرواہ کئے تیسرا کشمیری اٹھا اور آذان جاری رکھی یوں مسلمانوں کی آزادی سے خوف زدہ ڈوگرہ فوج نے گولیاں چلائیں اور مؤذنوں کو شہید کرتے رہے ادھر کشمیری بھی جذبہ اسلام سے سر شار تھے وہ بھی ایک ایک کرکے سینے پر گولی کھاتے گئے اور آخر کار 22 مؤذنوں کی شہادت کے بعد اذان مکمل ہوئی اور دنیا کی تاریخ میں ایک ایسی اذان بن گئی کہ جس کیلئے 22 جانیں دینا پڑیں مگر کشمیریوں نے اذان کی تکمیل کی خاطر اپنی جانیں دینے سے دریغ نا کیا جس پر ڈوگرا راج دہشت کا شکار ہو گیا اور یوں کشمیر کی تحریک آزادی کا باقاعدہ آغاز ہوا اور اسی دن کو یوم شہداء کشمیر کے نام سے منایا جاتا ہے
تحریک آزادی کے شروع سے ہی اتنی بڑی قربانی دے کر کشمیریوں نے ثابت کر دیا کہ چاہے جتنی بڑی قربانی دینی پڑے وہ تیار ہیں اور بغیر سوچے قربانی دینگے اور تب سے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری آزادی کشمیر کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے
ادھر موجود قابض ہندو مودی گورنمنٹ نے ڈوگرا راج کی طرح ظلم و تشدد کا راج قائم کرتے ہوئے پچھلے سال 5 اگست سے کرفیو لگا رکھا ہے تاکہ کشمیری آزادی کو بھول جائیں مگر کشمیری پہلے سے زیادہ جوش و جذبے سے ہندو فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہے ہیں
ہم چھین کے لینگے آزادی
ہے حق ہمارا آزادی
شاید کشمیر کی صورتحال پر ہی شاعر نے یہ شعر کہا تھا
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تم تیر آزماؤں ہم جگر آزمائیں
ان شاءاللہ بہت جلد آزادی کشمیر اپنی تکمیل کو ہے اور یہی آزادی کشمیر بربادی ہند میں بدل جائے گی ان شاءاللہ کیونکہ دنیا کشمیریوں کی قربانیوں سے بخوبی واقف ہے
کشمیری کٹ تو سکتے ہیں مگر جھک نہیں سکتے کیونکہ کشمیریوں کا نعرہ ہے تیرا میرا رشتہ کیا ؟ لا الہ الا اللہ

22 مؤذنوں کی شہادت اور 13 جولائی یوم شہداء کشمیر از قلم ۔۔ غنی محمود قصوری
Shares:







