امریکہ کی طرف سے ساری دنیا میں لاکھوں لوگوں اور پیغام رسانی کی جاسوسی کے خفیہ پروگرام کا انکشاف کرنے والے سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن نے کہا ہے کہ برطانیہ نے پاکستان کے علم میں لائے بغیر بڑے پیمانے پر جاسوسی کی.

بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں ایڈورڈ سنوڈن نے کہا کہ ان کو افسوس رہے گا کہ انہوں نے جاسوسی کے اس پروگرام کا انکشاف پہلے کیوں نہیں کیا؟ ،حسین عسکری اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ایڈورڈ سنوڈن سے انٹرویو طے کرنے میں تین ماہ لگے.

انٹرویو کیلئے ہمیں ایک خفیہ زبان کے ذریعے ماسکو بلایا گیا.جہاں ایڈورڈ سنوڈن کو خود ہمارے ہوٹل (قیام گاہ) آنا تھا.جو کچھ انہوں نے کیا اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایڈورڈ سنوڈن کا کہنا تھا کہ میں نے دیکھا کہ لوگوں کو بتائے بغیر کسی جرم کے بغیر ہی لوگوں کی پیغام رسانی کی مستقل نگرانی کی جارہی ہے،اور یہ سب لوگوں کی مرضی کے بغیر ہو رہا ہے.
برطانوی سراغ رساں ادارے ( جی سی ایچ کیو) کی طرف سے لوگوں کے سمارٹ فونز کی جاسوسی پر بھی ایڈورڈ سنوڈن نے تشویش کا اظہار کیا.انہوں نے بتایا کہ اس صلاحیت کو کمپیوٹر نیٹ ورک ایکسپلائیٹیشن کہا جاتا ہے.
سی آئی اے کے سابق اہلکار نے جی سی ایچ کیو کے تحت چلنے والے خفیہ پروگرام کے بارے میں بھی بتایا،ان کا کہنا تھا اس کو کارٹون کردار( سمرفس) کا نام دیا گیا ہے.انہوں نے بتایا کہ ڈریم سمرس کے ذریعے وہ جب چاہیں آپ کا موبائل فون بند (آف)یا کھول (آن)سکتے ہیں .
نوزی سمرف کے بارے میں سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن نے بتایا کہ فون کے مائیک کو کنٹرول کرتا ہے،اور کسی بھی جیب میں پڑے فون کے مائیک کوآن کر کے ارد گرد کی آوازیں یا گفتگو سنی جا سکتی ہے اور ٹریکر سمرف پروگرام کے ذریعے آپ کے فون کی مدد سے آپ کی نقل وحرکت کی بالکل درست نشاندہی کی جاسکتی ہے.
ایڈورڈ سنوڈن نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح سے جی سی ایچ کیو نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر مواصلاتی معلومات حاصل کیں.جس کا مقصد غالبا دہشت گردوں کی نشاندہی اور ان کا پیچھا کرنا تھا،اس برطانوی سرکاری ادارے نے پاکستان میں ایک امریکی کمپنی سیسکو کے ڈیجیٹل جنکشن باکس تک رسائی حاصل کی ، یہ پاکستان میں فون کی سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے سرورز کو ان کی اجازت کے بغیرکنٹرول کرتے ہیں.
انہوں نے مذید بتایا کہ بظاہر یہ جاسوسی برطانوی حکومت کی اجازت سے کی گئی،تاہم جی سی ایچ کیو نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا. بس اتنا کہا کہ ان کے تمام کام قانون کے دائرہ میں رہ کر کئے جاتے ہیں.
امریکی اور برطانوی حکومتیں ایڈ ورڈ سنوڈن کو غدار سمجھتی ہیں،جس نے ان کے اعتماد کو دھوکا دیا،بی بی سی کے نمائیندہ کو سوال کے جواب میں سنوڈن کا کہنا تھا کہ میں غدار نہیں ہوں ،میں نے کس سے غداری کی ہے؟،ان کا کہنا تھا کہ یہ دلیل بھی دی جاسکتی ہے کہ میں نے امریکیوں کو بچانے کیلئے حکومت سے غداری کی.
ایڈ ورڈ سنوڈن اب ماسکو میں ہی رہیں گے یا کھبی امریکہ جا کر اہنے خلاف مقدمہ کا سامنا کرے گا ،یا کو کچھ انہوں نے کیا س پر جیل جائیں گے،ایک سوال کے جواب میں ایڈ ورڈ سنوڈن نے کہا کہ مجھے یہ افسوس ضرور ہے کہ میں نے یہ انکشاف پہلے کیوں نہیں کیا؟ ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے فیصلے پر مطمئن ہوں اور اس کیلئے میں نے قیمت بھی ادا کی ہے.انہوں نے کہا کل جب میں اس دنیا میں نہیں ہوں گا تو میں خود کو خوش نصیب سمجھوں گا.








