بھارت خطےمیں چین اورپاکستان کےمقابلےکیلئےروسی ہتھیاروں کی فراہمی پربے یقینی کا شکار
روس کے یوکرین پر حملے کے نتیجے میں امریکا کی جانب سے پابندیاں عائد ہونے کے بعد بھارت روسی ہتھیاروں کی فراہمی میں بڑی رکاوٹوں سے بچنے کے لیے مختلف راستے تلاش کرنے لگا ہے تاکہ وزیراعظم نریندر مودی کو سرحد میں چین کے ساتھ درپیش مشکلات میں مزید اضافہ نہ ہو۔
باغی ٹی وی : عالمی خبررساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے بتایا کہ بھارت کے 60 فیصد دفاعی ہتھیار روس سے آتے ہیں، اور بیک وقت بھارت چین سے ایک علاقائی تنازع پرمشرقی لداخ میں دو سال سے سرحدی تناؤ کا سامنا ہے جہاں ہزاروں فوجی ہمہ وقت تیار ہیں۔
81 افراد کو سزائے موت: ایران نے سعودی عرب کیساتھ مذاکرات ملتوی کر دیئے
قبل ازیں 2020 میں اس تنازع میں فائرنگ کے نتیجے میں بھارت کے 20 جبکہ چین کے 4 فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
بھارت کے سابق سیکریٹری خارجہ شیام سارن نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ اگر امریکا اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اسے روس کی طرف سے بڑے خطرے کا سامنا ہے اور یہ چین کے ساتھ اسٹریٹجک سہولیات کا جواز پیش کرے اور ایشیا میں چینی تسلط کے پیش نظر اپنے یورپی حصے کی حفاظت کرے گا تو یہ بھارت کے لیے یہ ڈراؤنا خواب ہوگا۔
کیا چین یوکرین سے سبق حاصل کرتے ہوئے متنازع لداخ یا تائیوان میں جارحیت کرے گا؟
بھارت کے سابق سفارت کار اور جندال اسکول آف انٹرنیشل افئیرز کے فیلو جیتندر ناتھ مشرا نے اس سوال کا جواب دیا کہ بالکل یہ ممکن ہے کہ وہ ایسا کرسکتا ہے۔
صدر جو بائیڈن نے یوکرین میں روسی جارحیت کے خلاف اقوام متحدہ کی قراردادوں پر ووٹنگ سے باز رہنے کے بعد ہندوستان کے ساتھ حل نہ ہونے والے اختلافات کے بارے میں بات کی ہےبھارتی وزیر اعظم مودی کی جانب سے تاحال روس کی یوکرین میں جارحیت پر اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی قرارداد میں روس کے خلاف ووٹ ڈالنے یا روسی صدر پر تنقید کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔
ہم دنیا کوتیسری عالمی سےبچانا چاہتے،لیکن روس تیسری عالمی جنگ کی طرف جارہا…
1990 کی دہائی کے اوائل میں، تقریباً 70% ہندوستانی فوج کے ہتھیار، 80% فضائیہ کے نظام اور 85% بحریہ کے پلیٹ فارم سوویت نژاد تھے تاہم ہندوستان اب روسی ہتھیاروں پر اپنا انحصار کم کر رہا ہے اور اپنی دفاعی خریداری میں تنوع پیدا کر رہا ہے، امریکہ، اسرائیل، فرانس اور اٹلی جیسے ممالک سے زیادہ خریداری کر رہا ہے۔
انٹرنیشنل پیس رسرچ انسٹیٹیوٹ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق،2016 سے 2020 تک روس سے بھارت کو تقریباً 49% تک دفاعی ہتھیاروں کی برآمدات ہوئیں جب کہ فرانس سے 18% اور اسرائیلی سے 13% دفائی ہتھیاروں کی برآمدات ہوئیں۔
بھارت کے سابق فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہڈا نے کہا کہ ہندوستان نہ صرف روسی ہتھیاروں پر انحصار کرتا ہے بلکہ وہ اپنے دفاعی شعبے میں خود انحصاری کی طرف بڑھتے ہوئے فوجی اپ گریڈیشن اور جدت کے حوالے سے ماسکو پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
گیند لگنے پر انتہا پسند ہندوؤں نے 17 سالہ مسلم نوجوان کو قتل کر دیا
انہوں نے کہا کہ روس وہ واحد ملک ہے جس نے بھارت کے لیے ایک جوہری آبدوز لیز پر دی، کیا کوئی دوسرا ملک بھارت کو جوہری آبدوز لیز پر دے گا ؟
سنٹر فار پالیسی ریسرچ کے ایک سینئر فیلو سوشانت سنگھ نے کہا کہ بھارت کی بحریہ کے پاس ایک طیارہ بردار بحری جہاز ہے۔ یہ روسی ہے صرف یہی نہیں بلکہ بھارت کے لڑاکا طیارے اور اس کے تقریباً 90 فیصد جنگی ٹینک روسی ہیں۔
1987 میں، بھارتی بحریہ نے تربیت کے لیے سابق سوویت یونین سے ایک چارلی کلاس جوہری کروز میزائل آبدوز چیکرا ون لیز پر لی تھی اور اس کے بعد اس کی جگہ ایک اور آبدوز میزائل چیکرا ٹو حاصل کی تھی۔
بھارت نے 2019 میں نے 3 ارب ڈالر کا معاہدہ کرکے 10 سال کی لیز پر جوہری طاقت سے حملہ کرنے والی آبدوز اکولاون بھی حاصل کی تھی جو ممکنہ طور پر 2025 تک فراہم کی جائے گی۔
بھارت نے اپنا واحد طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرمادتیہ 2004 میں روس سے خرید کیا تھا اور پہلا 40 ہزار ٹن بحری طیارہ اگلے سال تک بیڑے میں شامل ہونے سے پہلے سمندری مشقوں سے گزر رہا ہے۔
بھارت کے پاس چار جوہری طاقت سے چلنے والی بیلسٹک میزائل آبدوزیں بھی زیر مراحل ہیں۔
مودی اورمودی نوازوں نےاقتدار میں آتے ہی مسلمانوں کو دھمکیاں دینی شروع کردیں
بھارت کی فضائیہ کے پاس اس وقت 410 سے زیادہ سوویت یونین ساختہ اور روسی لڑاکا طیارے ہیں، جس میں درآمد اور لائسنس شدہ پلیٹ فارم بھی شامل ہیں ہندوستان کی روسی ساختہ فوجی ساز و سامان کی فہرست میں آبدوزیں، ٹینک، ہیلی کاپٹر، آبدوزیں، فریگیٹس اور میزائل بھی شامل ہیں۔
جیتندر ناتھ مشرا نے کہا کہ امریکا نے بھارت کو ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے کوئی امادگی ظاہر نہیں کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنے امریکی دوستوں سے پوچھنا چاہوں گا کہ آپ نے ہمیں کس قسم کی دفاعی ٹیکنالوجی دی ہے؟ امریکا ایف-16 طیاروں کو دوبارہ تیار کرکے ایف-21 کے طور پر پیش کر رہا ہے بھارت کے نکتہ نظر میں ایف-16 طیارہ پرانا ہو چکا ہے، ہم نے 1960 میں ایم آئی جی-21 لیا تھا کیونکہ بھارت کو ایف- 104 سے انکار کیا گیا تھا اور ہمیں چیزیں ویسی ہی نظر آرہی ہیں۔
امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان ہونے والے سیکیورٹی معاہدے AUKUS کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکا آبدوز کی تیاری کے لیے جوہری ٹیکنالوجی آسٹریلیا کو تو دے رہا ہے مگر بھارت کو دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔
آسٹریلیا نے گزشتہ برس ستمبر میں فرانس سے ڈیزل الیکٹرک آبدوز خریدنے کے لیے اپنا اربوں ڈالرز کا معاہدہ منسوخ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب ہم انڈو پیسفک دفاعی معاہدے کے تحت امریکا سے جوہری طاقت رکھنے والے ہتھیار خریدیں گے۔
بھارت میں اوباش نوجوانوں کے گروہ کا دو خواتین کا سرعام جنسی استحصال
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران، امریکہ اور بھارت نے 3 بلین ڈالر سے زائد کے دفاعی معاہدے کیے تھے۔ دو طرفہ دفاعی تجارت 2008 میں صفر کے قریب سے بڑھ کر 2019 میں 15 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔
بھارت کی امریکا سے اہم خریداری میں ہتھیاروں میں دور تک مار کرنے والا سمندری نگرانی کرنے والا طیارہ، سی-130 ٹرانسپورٹ ایئر کرافٹ، میزائل اور ڈرون شامل تھے۔
جیسے جیسے یوکرین کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے، ہندوستان کے لیے چیلنج یہ ہے کہ روس کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کو کیسے روکا جائے۔
امریکا کی جانب سے اپنے شراکت داروں کو روسی فوجی ساز وسامان کی خریدار سے گریز کرنے کے مطالبے کے بعد بھارت کو ماسکو کے ساتھ روسی ایس-400 میزائل سسٹم کے معاہدے نے امریکی پابندیوں کے خطرات میں ڈال دیا ہے۔
ایس-400 ایک جدید ترین فضائی دفاعی نظام ہے اور اس سے بھارت اپنے حریفوں چین اور پاکستان کے خلاف اسٹریٹجک برتری حاصل ہونے کی امیدلگائے بیٹھا ہے۔
نئی دہلی خطے میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے واشنگٹن اور ‘کواڈ’ کے طور پر قائم انڈو-پیسفک سیکیورٹی اتحاد میں شامل اپنے اتحادیوں سے مدد مانگ چکا ہے، جس میں آسٹریلیا اور جاپان بھی شامل ہیں۔
بھارتی بحریہ کے ایک ریٹائر ایڈمرل ایس سی ایس بنگارا نے بھارت کی سوویت ہتھیاروں کے حصول کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے 1962 میں چین کے ساتھ جنگ کے بعد ہتھیاروں اور گولہ بارود کی خریداری شروع کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ سرد جنگ کے نتیجے میں امریکا نے چین کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی، پاکستان کے پاس ایک سہولت کار کے طور پر ترپ کا پتہ ہے جس کو پاک-بھارت تنازع کی صورت میں امریکی حکومت کی مکمل حمایت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دسمبر1971 میں ہونے والی جنگ کے دوران امریکا نے پاکستان کی حمایت میں خلیج بنگال میں یو ایس ایس انٹرپرائز کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس تعینات کی تھی جبکہ اسی طرح کی تعیناتی سوویت یونین کی بحریہ نے بھی بھارت کی حمایت میں کی تھی۔
دونوں طرف سے تعینات کی جانے والی فورسز کا جنگ کے دوران مداخلت کرنا یا نتائج پر اثر انداز ہونا نہیں تھا لیکن دونوں طاقتوں کی طرف سے اپنا سفارتی مؤقف پیش کردیا گیا۔
بنگارا کا کہنا تھا کہ 1960 میں بھارت نے ہتھیاروں کی خریداری کے لیے سوویت یونین سے متعدد معاہدے کیے جو 40 سال تک جاری رہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اتنا آسان نہیں تھا، خاص طورپر جب سوویت یونین ٹوٹ گیا تھا، جب سوویت یونین متعدد چھوٹی ریاستوں کی صورت میں بکھر گیا تو امداد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ تربیتی سہولیات کا سلسلہ بھی ٹوٹ گیا تھا۔
بنگارا نے کہا کہ یہاں تک کہ اگر بھارت اپنے دفاعی ضرورت کے لیے امریکا، اسرائیل، فرانس اور دیگر ممالک سے راہ ہموار کرتا بھی ہے تو اس کو روسی سازوسامان اور آلات پر اپنا انحصار ختم کرنے میں 20 سال لگ سکتے ہیں۔