“جب تم میں حیا باقی نہ رہے تو جو چاہے کرو” تحریر:اقصٰی یونس

ڈرامے اور فلیمیں اپنے معاشرے کی عکاسی اور اپنے کلچر کو فروغ دینے کیلئے بنائی جاتی ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ جو کچھ آج کل ہمارے ڈراموں اور فلموں میں دکھایا جا رہا ہے وہ کسی طور ہمارے معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا ۔ چینلز ریٹنگ کی دوڑ میں مغربی معاشرے اندھا دھند تقلید کیے جارہے ہیں اور اس تقلید میں وہ شاید یہ بھی بھول چکے کہ وہ ایک اسلامی ریاست کا حصہ ہیں ۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی بنیاد ہے لاالہ الا اللہ پہ رکھی گئی مگر آج مغربی پراپیگندہ اپنی جڑیں اتنی مضبوطی سے پاکستان کے میڈیا میں گاڑ چکا ہے کہ اس کا کوئی حل شاید ہی ممکن ہو۔

ایک وقت تھا جب پاکستان ٹیلی ویژن پہ بہت اچھا اور معیاری مواد دکھایا جاتا تھا ۔ نیوز اینکرز سر پہ سلیقے سے دوپٹہ جمائے نظر آتی تھی اور ڈراموں کے ذریعے انتہائی اہم اور نازک موضوعات کو زیر بحث لایا جاتا تھا ‎ٹیلی و یژن کبھی کسی زمانے  میں گھر بھر کی تفریح کیساتھ دنیا سے جوڑنے کا سبب تھا۔

‎اب مغرب کی اندھی تقلید  سے معاشرے کے بگاڑ وبربادی کا سبب بن گیا ہے۔ بے راہ روی  بے حیائی کے فروغ میں ٹی وی کا بہت بڑا کردار  ہے۔ جیسے جیسے چینلز کی تعداد میں اضافہ ہوا بے حیائی بڑھتی گئی۔ہمارے حکمران  چونکہ دین بیزار  ہیں اس لئے   میڈیا کا کوئی قبلہ کوئی  قانون نہیں۔ سو شتر بے مہار کی مانند  جس نے   جو چاہا دکھایا ۔ ننگ پن فحاشی کے وہ مناظر  دکھائے جانے لگے جنہیں  تنہائی  میں دیکھتے ہوئے  بھی شرم آجائے۔
‎ اینکرو کمپیئر کا دوپٹہ جو سر  سے نہ ہٹتا تھا گزرتے وقت کیساتھ   دوپٹہ ہی نہیں حیا بھی کہیں گم ہوگئی۔ اس وقت چند اسلامی چینلز  کے سوا  ہر ٹی وی  چینل  پر عریانی اور فحاشی کو ایسے فروغ دیا جارہا ہے "جیسے یہ کوئی لازمی زمینداری ہو”

ہر ڈرامے میں بس طلاق اور افیئرز جیسے موضوعات زیر بحث لائے جاتے ہیں تو کہیں حاملہ عورت کا ڈی این اے ٹیسٹ ایک سنگین مسئلہ دکھایا جاتا ہے۔ جہاں کسی کو امیر دکھانا ہوں نیم برہنہ لباس پہنا دیا جاتا ہے۔ اور غربت دکھانے کو سر پہ دوپٹہ آوڑھا دیا جاتا ہے۔پہلے دوپٹہ غائب ہوا اب آہستہ آہستہ کپڑے بھی سکڑ کر مزید چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں ۔ یہاں تک بھی بات قابل برداشت نہ تھا۔ مگر سونے پہ سہاگہ یہ ایوارڈ شو جو صرف بے حیائی کا بازار ہیں ۔ گزشتہ روز “ ہم سٹائل لکس ایوارڈ “ کی کچھ تصاویر دیکھنے کا اتفاق ہوا ان تصاویر کو دیکھ کر میں قلم اٹھائے بغیر نہ رہ سکی۔

ان تصاویر میں دوپٹہ تو خیر نظر آنا کسی بنجر جگہ پر آم کے درخت دیکھنے کے مترادف تھا لیکن ان تصاویر سے صاف ظاہر تھا کہ ہم مغربی میڈیا سے کتنے متاثر اور اور اسکے کتنے دلدادہ ہیں ۔ خوبصورت نہیں بلکہ ماڈرن نظر آنے کی دوڑ میں ماڈلز اور اداکارہ خود کو نیم برہنہ کرنے پہ بھی راضی اور یہ مناظر کیمرے کی آنکھ میں قید ہو کر ساری دنیا تک پہنچے ہوں گے ۔

رہی بات ریٹنگ کی دوڑ کی تو کون کہتا ہے کہ پاکستانی اچھے ڈراموں کی بجائے ساس بہو کی لڑائی اور بے حیائی کا تڑکا لگاتے ڈرامے دیکھنا چاہتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو ارطغرل جیسا ڈرامہ جو اسلامی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے ریٹنگ کے سارے ریکارڈ نہ توڑتا۔

لباس جسم کو ڈھانپنے کا ذریعہ ہے ۔ مگر اب لباس کی تراش خراش جسمانی نشیب و فراز کو ظاہر کرنے کے لئے کی جاتی ہے اور اسے ترقی، ماڈرن ازم، جدید دور کی ضرورت اور روشن خیالی کا نام دیا گیا ہے۔ آج کے نوجوان فلم،ٹی وی ڈرامے، اشتہارات، اخبارات میں فلمی ستاروں کی تصاویر دیکھ کر ان کے جیسا بننے کا سوچتے ہیں۔ اب ہماری نئی نسل کی اکثریت کے رول ماڈل انڈین فلموں کے ہیرو‘ ہیروئن ہوتے ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ اگر وہ بیہودہ لباس نہ پہنیں تو وہ ترقی یافتہ‘ روشن خیال نہ کہلائیں گے بلکہ ان کا شمار اولڈ کلاس میں ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ پیمرا اور ریگولیشن اتھارٹیز کیا بھانگ پی کر سو رہے ہیں ۔ پیمرا فقط ایک نوٹس دے کر سمجھتا ہے کہ اپنی ساری زمینداری سے سبکدوش ہوگیا۔ صرف پیمرا ہی کیوں قومی اسمبلی میں بیٹھے ہر شخص کو صرف کرسی کی بھوک کا لالچ ہے ان کی بلا سے کلچر ، ثقافت اور اخلاقیات جائے بھاڑ میں ۔ یہ زمینداری تو ہر شہری کی بھی ہے کہ وہ اس پہ آواز آٹھائے ۔ مگر اس مسئلے سے شاید نہ تو پیمرا کو غرض ہے نہ ہی کسی ریاستی ادارے کو ۔ کیونکہ یہ مسئلہ ان کے مفادات اور حرس سے کہیں پیچھے رہ گیا اور وہ کرسی کی دوڑ میں ریاست مدینہ کے دعویدار اپنی ساری زمینداریاں بھول بیٹھے ہیں ۔

پیمرا کو چاہیے ٹیلی ویژن پہ نشر ہونے والے مواد کو مکمل طور پہ مانیٹر کیا جائے ۔ اور ہر وہ مواد جو بے حیائی کو فروغ دے اسے مکمل طور پہ بین کرکے متعلقہ چینل کو بھاری جرمانہ کیا جائے ۔ تاکہ آئیندہ کوئی ایسا پروجیکٹ کرے ہی نہ جس سے ہماری ثقافت اور کلچر کو نقصان پہنچے۔اور ایسے ڈراموں کو فروغ دیا جائے جو حقیقی معنوں میں ہمارے معاشرے ،ہمارے کلچر اور ثقافت کی عکاسی کرے۔

وہ حیا جو کل تلک تھی مشرقی چہرے کا نُور
لے اُڑی اُس نِکہتِ گُل کو یہ تہذیبِ فرنگ

<Writer Aqsa Younas


 Aqsa Younas

Aqsa Younas is a Freelance Journalist Content Writer, Blogger/Columnist and Social Media Activist. He is associated with various leading digital media sites in Pakistan and writes columns on political, international as well as social issues. To find out more about her work on her Twitter account

  

 


https://twitter.com/AqsaRana890

Comments are closed.