6نومبر 1947 کا ہولناک دن جب مقبوضہ جموں کے مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام شروع ہوا۔ یہ بدترین خونریزی کئی ماہ جاری رہی جس میں5 لاکھ کے لگ بھگ کشمیری شہید اور لاکھوں علاقہ بد کر دئیے گئے۔ اس سارے قتل عام کی منصوبہ بندی بھارتی وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل اور اس کے حواریوں نے کی تھی جسے آر ایس ایس اور دیگر ہندو دہشت گرد تنظیموں نے انتہائی منظم انداز میں انجام دیا۔
اس قتل عام میں 6نومبر کے روز جموں پولیس لائن سے ایک قافلہ جو بیسیوں ٹرکوں پر مشتمل تھا مقامی انتظامیہ کی جانب سے جمع کرکے سیالکوٹ بھیجنے کے بہانے روانہ کیا گیا تھا۔جب یہ قافلہ عین درمیان میں پہنچا تو اس میں سوار سب لوگوں کو ہندو اور سکھ بلوائیوں نے، جو پہلے سے تیار تھے گھیر کر قتل کر دیا۔
صرف جوان لڑکیوں کو زندہ چھوڑا گیا اور حملہ اور سکھ اور ہندو انہیں پکڑ کر ساتھ لے گئے۔ بے شمار کی عزتیں لوٹیں اور قتل کیا اور بے شمار کو مستقل گھروں میں ہی رکھ کر انہیں رگیدتے بھنبھوڑتے رہے اور ان سے ہندو اور سکھ اولادیں پیدا کرتے رہے۔
حالات اس قدر دگرگوں اور خوفناک تھے کہ جموں کے ایک معروف کشمیری رہنما مستری عطا محمد نے اپنی تین جوان بیٹیاں اسی عمل سے بچانے کے لیے خود اپنے ہاتھ سے ہی ذبح کر دیں۔ معروف کشمیری رہنما اور قائد اعظم کے سٹاف افسر چودھری غلام عباس کی بہنیں بھی اسی درندگی کا شکار ہوئیں۔
جموں میں تب65فی صد مسلم آبادی تھی جو 38فی صد رہ گئی۔
آج اس قتل عام کو 74برس بہت چکے، ہم چاہے اسے بھول جائیں کشمیری کبھی نہیں بھولے نہ بھولیں گے اور حساب و انتقام تک چین بھی نہیں لیں گے۔