پاکستان میں جنسی تشدد کی اہم وجوہات اور انکا سد باب .تحریر : حسن ساجد

0
110

باغی ٹی وی ویب سائٹ کے توسط سے راقم الحروف نے اپنی گزشتہ تحریر کے ذریعے پاکستان میں بچوں کے ساتھ ہونیوالے جنسی تشدد کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ کی طرف ارباب اختیار اور عوام الناس کی توجہ دلانے کی کوشش کی۔ میں باغی ٹی کی انتظامیہ کا بے حد شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک اہم اور توجہ طلب مسئلہ پر میری تحریر کو شائع کیا۔ بڑھتا ہوا جنسی تشدد ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جسے ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اور کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے سے پہلے اس کی ممکنہ وجوہات کو تلاش کرنا اہم ہوتا ہے۔ پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے چند اہم وجوہات اور ان کا ممکنہ میری حل آج کی تحریر کا حصہ ہے۔

1- ماحول، معاشرہ اور شعور:
کسی بھی جاندار کی طبیعت، مزاج، کردار اور اوصاف پر اس کے ماحول اور معاشرہ کی گہری چھاپ ہوتی ہے۔ انسان پیدائشی طور پر سلیم الفطرت اور معصوم ہوتا ہے۔ انسان خیر اور شر دونوں چیزیں اپنے معاشرے اور اردگرد کے ماحول سے سیکھتا ہے۔ انسان پیدائشی طور پر نیکوکار یا بدکار نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف ایک انسان ہوتا ہے، معاشرہ ہی اس کو اچھائی یا برائی کی جانب راغب کرتا ہے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں منفی سوچ اور منفی روایات فروغ پا رہی ہیں جن کو سیکھ کر ہمارے نوجوان بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں۔ میرے نزدیک جب بری صحبت کا شکار یہ نوجوان اپنے جذبات کی تسکین کے لیے خیر اور شر کی تمیز بھول جاتے ہیں تو ایسے واقعات جنم لیتے ہیں۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو باکردار بنانے اور اس لعنت سے چھٹکارہ پانے کے لیے ان کے ذہنوں سے منفی سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا اور تربیت کے اس فقدان کا خلا پر کرنا ہوگا جس کی بدولت وہ ایک انسان کی بجائے وحشی درندے کا روپ دھار لیتے ہیں۔ کیونکہ ہم معاشرے سے منفی سوچ اور منفی رویوں کو ختم کیے بغیر اس برائی اور اس جیسی دیگر برائیوں سے نہیں بچ سکتے ۔

اس معاملے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی برائی کو ختم کرنے سے پہلے اس برائی کے متعلق شعور اور اس سے متعلق آگہی کا ہونا ضروری ہے مگر ہمارے نوجوان میں شعور اور آگہی کی کمی ہے ۔ جس کے باعث ہم ایک صحت مند اور باشعور معاشرہ تشکیل دینے سے قاصر ہیں۔ معاشرتی برائیوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مثبت روایات کا امین اور تہذیب و اخلاقیات کا پاسدار ایک صحت مند، مہذب، باشعور اور پڑھا لکھا معاشرہ تشکیل دیں جو مثبت سوچ کی حامل ایک ایسی نوجوان نسل تیار کرے جن میں ایسی خرافات بالکل موجود نہ ہوں۔ اور اس طرز کے صحت مند اور تہذیب یافتہ معاشرے کی تشکیل کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کے سامنے گندی اور فحش گفتگو سے پرہیز کریں۔ ان کے سامنے اخلاقیات سے گری ہوئی گفتگو نہ تو خود کریں اور نہ ہی کسی دوسرے کو کرنے دیں۔ ہم ان کے اندر مثبت سوچوں کو پروان چڑھائیں اور ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے انہیں معاشرے کا ایک ذمہ دار اور باشعور شہری بننے میں مدد فراہم کریں۔

2- والدین اور بچوں کے تعلقات میں کھچاؤ:-

بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین اور بچوں کے تعلقات اکثر خاندانوں میں کھچاؤ کا شکار رہتے ہیں۔ والدین اور بچوں کے تعلقات میں اعتماد کی جگہ سختی اور ڈر پایا جاتا ہے۔ جس کے باعث نہ تو بچے کھل کر اپنے مسائل کا اظہار اپنے والدین سے کر سکتے ہیں اور نہ ہی والدین بچوں کو دوستانہ ماحول فراہم کرتے ہیں جس میں مسائل کو سن کر اس کا مؤثر حل نکالا جائے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے کہ میری نظر سے چند ایسے واقعات بھی گزرے ہیں جن میں بچوں نے جب والدین سے اپنے ساتھ ہونے والے اس بدترین سلوک کا تذکرہ کیا تو والدین نے ان کو اعتماد دینے اور ان کا مسئلہ حل کرنے کی بجائے الٹا ان کو ڈانٹ دیا کہ وہ متعلقہ شخص پر الزام تراشی کر رہے ہیں جس کی بدولت بظاہر شرافت کا لبادہ اوڑھے معاشرے کے مکروہ کرداروں کی مزید حوصلہ افزائی ہوئی اور بہت سے دیگر بچے انکی وحشت کا شکار ہوتے رہے۔ جب تک والدین ایسے مسائل پر اپنے بچوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان پر مؤثر انداز سے کوئی ایکشن نہیں لیں گے یا اپنے بچوں کی شکایات کو محبت سے دوستانہ ماحول میں سن کر ان کے مسائل اور شکایات کو دور کرنے کی مخلص کوشش نہیں کریں گے ہمارے معاشرے میں ایسے مسائل جنم لیتے رہیں گے۔
ایسے دلخراش واقعات سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ اعتماد کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات قائم کریں جس میں وہ بچوں کو ایسی پیش آنے والی اور دیگر تمام شکایات کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں اور جب بچوں کو ایسی صورتحال کا سامنا ہو تو وہ بچوں کو ڈرانے یا دھمکانے کے بجائے ان کے ساتھ بہتر اور مثبت رویہ رکھتے ہوئے ان کے مسائل کو حل کریں۔

3- غربت، بے روزگاری اور معاشی اضطراب:-
حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک مبارک حدیث کا مفہوم ہے کہ “قریب ہے کہ تمہاری غربت تمہیں کفر تک لے جائے”۔ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرتی خرافات کے پیش آنے میں ایک بڑی وجہ غربت اور بے روزگاری بھی ہے۔ میرے نزدیک ایسے واقعات کے بڑھنے کی ایک وجہ غربت، بے روزگاری اور معاشی اضطراب ہے کیوں کہ غربت کے باعث والدین اپنے بچوں کا پیٹ پالنے میں بے حد مصروف ہیں۔ ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچے کی حرکات پر توجہ دیں یا اس سے ملنے جلنے والے افراد پر نظر رکھیں۔
اب اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو بڑھتی ہوئی بے روزگاری نوجوانوں کو ٹینشن، ذہنی دباؤ، نفسیاتی مسائل، معاشی اضطراب اور محرومیاں دے رہی ہے اور نوجوان اس ہیجانی کیفیت سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ فحش بینی، نشہ اور دیگر سماجی برائیوں کی نظر ہوجاتے ہیں۔ ایسے کام کرنے سے ان کے اندر منفی سوچوں کا رجحان بڑھتا ہے جو ان کو سماجی برائیوں مثلاً کرپشن بدعنوانی اور جنسی تشدد جیسے واقعات کی طرف ابھارتا ہے۔
ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ہنگامی بنیادوں پر اپنے معاشی مسائل کو حل کریں۔ بالخصوص نوجوان طبقہ کی کریئر کونسلنگ پر توجہ دی جائے تا کہ ہمارا نوجوان معاشی بدحالی کا شکار ہو کر سماجی خرافات کی نظر نہ ہو جائے۔

4- کمزور قوانین اور سماجی بے حسی :-
کمزور عدالتوں اور ناقص قانون سازی کے حوالہ سے ہم جہاں کرپشن اور بدعنوانی سمیت بہت سے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں وہیں جنسی تشدد کے واقعات کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں کے قوانین اور عدالتی کاروائیاں بہت کمزور ہیں۔ سیاسی دباؤ، اثر و رسوخ رشوت اور دیگر افعال کے ذریعے ہم انصاف کو مظلوم کی پہنچ سے دور کر دیتے ہیں۔ اور ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا معاشرہ اجتماعی سماجی بے حسی کا شکار ہے۔ کیونکہ ہمیں صرف اپنا ہی درد محسوس ہوتا ہے دوسرے کے درد کو محسوس کرنے کا جذبہ ہم میں ناپید ہوچکا ہے۔ ہم دوسروں کی تکلیف کو محسوس کر کے اس کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے اپنے اوپر اس مصیبت کے نازل ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
ایسے واقعات سے بچنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم معاشرے میں احساس ذمہ داری، باہمی اخوت اور ایثار کا جذبہ پیدا کریں تاکہ ہم دوسروں کے ساتھ پیش آنے والے مسائل پر ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ ہمیں اپنے عدالتی نظام کو بھی بہتر بنانا ہوگا اور ہمارے پولیس اور تھانہ کلچر کو بھی ہمیں ٹھیک کرنا ہوگا تاکہ ایسے واقعات کے رونما ہونے پر ملزمان کو فورا پکڑا جائے اور مناسب سزا دی جائے تاکہ معاشرے میں برائیوں کے خاتمے کے عمل کو یقینی بنایا جا سکے۔

5- علاقائی تہذیب و ثقافت سے انحراف :
مثل مشہور ہے کہ “جیسا دیس ویسا بھیس”۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارا لباس اور ہمارا طرز زندگی ویسا ہونا چاہیے جیسا اس معاشرے اور کمیونٹی کے باقی تمام لوگوں کا ہے جس میں ہم رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں مغربی طرز زندگی پر کاربند ہونا اور مغربی لباس زیب تن کر کے مکمل طور پر معمول کے مطابق زندگی گزارنا مشکل کام ہے۔ مغربی طرز کا لباس زیب تن کر کے جب بچے اور بچیاں باہر نکلتے ہیں تو خون سونگھنے والے ان درندوں کی نگاہیں ان بچوں کا تعاقب کرتی ہیں جو موقعہ ملتے ہی اپنی تسکین کا سامان پیدا کرلیتی ہیں۔
ایسے واقعات کو مناسب انداز سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں اور بالخصوص بچیوں کو ایشیائی طرز کا لباس پہنائیں جو ہماری روایات اور ہمارے اردگرد کے ماحول کے متصادم نہ ہو۔ میں وزیراعظم پاکستان کے مختصر لباس کی ممانعت پر دیئے گئے بیانہ کی مکمل تائید کرتا ہوں۔ کیونکہ مختصر لباس زیب تن کرنا ہماری تہذیب و ثقافت اور ہمارے کلچر کا حصہ نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے خواتین اور بچیوں کا مختصر لباس مردوں میں درندگی ابھارنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے لہذا ہمیں بطور قوم اس کلچر اور اس رواج کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے شعار اور روایات کی پاسداری کرتے ہوئے خود بھی اسلامی لباس زیب تن کریں اور اپنے بچوں کو بھی اسکی عادت ڈالیں۔

6- ریاستی اداروں کا کردار:-
مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا کسی بھی ریاست کے چار اہم ستون ہیں۔ معاشرتی و اخلاقی تعمیر میں ان اداروں کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ یہ ادارے اپنے لوگوں کے مسائل کے حل کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بےشمار واقعات کے ہو جانے کے بعد بھی ریاستی اداروں میں بھی اس مسئلہ کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھائے جانے کے نام پر سیاست تو ہوئی ہے مگر کوئی ٹھوس اقدامات ہمیں نظر نہیں آئے جس کے ذریعے ہم اپنے مستقبل اپنے بچوں اور بچیوں کو اس آگ سے محفوظ رکھ سکیں۔ میڈیا پر بھی محض ٹی وی ریٹنگ بڑھانے اور واقعات کو اچھالنے کا کام ہوتا ہے واقعات کو حل کرنے اور آئندہ ایسے واقعات کی روکتھام کے حوالے سے میڈیا بھی اپنا تعمیری کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ میری ان تمام ریاستی اداروں میں بیٹھے ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ “بچے محفوظ مستقبل محفوظ” کے اصول پر عمل پیرا ہو کر مقننہ، عدلیہ اور میڈیا میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ قانون سازی کے عمل کو یقینی بنائیں تاکہ مجرموں کے لیے مؤثر سزاؤں اور قانونی حدود و قیود کا تعین کرتے ہوئے ان واقعات کو روکا جا سکے۔ بحیثیت پاکستانی میری اپنی قوم سے بھی گزارش ہے کہ ہمارے بچے ہی ہمارا مستقبل ہیں۔ اگر ہم نے یوں ہی بے حسی دکھائی تو کل کو یہ آگ پھیل کر ہمارے گھر تک پہنچ جائے گی اور پھر ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔
لہذا ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں مل کر آج ہی اس برائی کو روکنا ہوگا تاکہ ہمارا مستقبل محفوظ ہو۔ اللہ پاک پاکستان کے ہر بچے اور ہر بیٹی کو محفوظ مستقبل عطا فرمائے اور اسے اس ملک کا وفادار اور باعزت شہری بنائے۔
آمین

Leave a reply