‏ریاستِ مدینہ وہ اسلامی فلاحی ریاست تھی جو ٭حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٭کی قائدانہ صلاحیتوں کا ایک نمونہ تھا ۔جنہیں بنانے اور قائم رکھنے میں بہت سے "اصحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین "نے اپنی جانیں قربان کی تھی۔

اور ایک ایسا ریاست قائم کیا تھا ۔جو اسلام کا ایک قلعہ تھا جہاں کے حکمران اور رعایہ اللہ سے ڈرنے والے تھے
جہاں انصاف ہر امیر غریب مسلم غیر مسلم کے لئے یکسا تھا۔ہر کسی کو مذہبی آذادی تھی مظلوم کے لئے ایک مضبوط پنا گاہ تھی ۔ظالم کے لئے ایک دھشت کی علامت تھی ۔جہاں انسان تو کیا جانور پر بھی کوئی ظلم نہیں کرسکتا تھا

ریاست مدینہ کے لوگ والدین کے نافرمان نہیں تھے
وہاں والدین کی فرمانبرداری کروانے کے لئے اسمبلی میں قانون نہیں بنتی تھی
وہاں کوئی شیلٹر ہومز نہیں تھے بلکہ ہر کوئی والدین کی خدمت کرنا سعادت سمجھتے تھے
وہاں بہنوں کو اپنے حقوق لینے کے لئے عدالتوں اور تھانوں کے چکر نہیں لگانے پڑھتے بلکہ خود مل جاتے تھے
وہاں بیوی کو معلوم تھا کہ اگر اللہ کے سوا کسی کو سجدے کی اجازت ہوتی تو وہ شوہر ہوتا
اور خاوند اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اور نرمی کا برتاؤ کرتا اور اپنی وسعت کے مطابق اسے وہ اشیاء پیش کرتا جو اس کے لئے محبت اور الفت کا باعث ہوتا

وہاں بیوہ اور یتیم کا حق نہیں مارا جاتا
کاروبار میں دھوکا اور فراڈ روکنے کے لئے وہاں کسی محکمہ کی ضرورت نہیں تھی بلکہ لوگ خود اللہ سے ڈرنے والے تھے
کسی کا پڑوسی بھوکا نہیں سوتا تھا کیونکہ پڑوسیوں کے حقوق وہ لوگ جانتے تھے

بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت مظلوم کا ساتھ اور ظالم کا ہاتھ روکنا ان کا دستور تھا

وہاں انسانی حقوق کے لئے کوئی تنظیم نہیں تھی پھر بھی ہر انسان کو اپنا حق پورا ملتا تھا

وہاں پر سیاسی اختلاف پر کسی بے گناہ کو قتل نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ انکو معلوم تھا ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے
معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کے بارے میں سوچنا بھی وہ لوگ گناہ سمجھتے تھے کرنا تو دور

انکے اخلاق ایسے تھے جو زیادہ تر غیر مسلم انکے اخلاق کی وجہ سے مسلمان ہوجاتے تھے ۔کیونکہ انکو معلوم تھا حقوق اللہ تو اللہ چاھے معاف بھی کردے پر حقوق العباد کی کوئی معافی نہیں جب تک وہ انسان معاف نہ کرے
وہاں پر مولوی صاحبان ممبر رسول سے فرقہ واریت کو ہوا نہیں دیتے تھے بلکہ لوگوں کو حقوق اللہ اور حقوق العباد بیان کرتے تھے
وہاں کوئی فرقہ نہیں تھا بس صرف مسلمان تھے

وہاں علماء کرام کی عزت کی جاتی تھی کیونکہ علماء عملی تھے۔لوگ انکی عمل سے سیکھتے تھے

ان لوگوں کے پاس ہماری طرح سہولیات نہیں تھے موبائیل ٹیلی فون انٹرنیٹ وغیرہ
لیکن پھر بھی اپنوں سے با خبر رہتے تھے
اور
سب سے بڑی بات وہ لوگ پڑھنا لکھنا کم جانتے تھے مگر جاہل نہیں تھے

ایسے اور بھی بہت سی باتییں ہے پر لکھنا مشکل ہے

اب ہم لوگوں میں سے کتنے ہے جو ان سب باتوں پر پورے اترتے ہے کیونکہ جب سے پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان کو ریاستِ مدینہ کی طرح فلاحی ریاست بنانے کی بات کی ہے ۔جہاں بھی پاکستان میں کچھ غلط ہوتا ہے
لوگ اسکی ویڈیو یا تصویر سوشل میڈیا پر ڈال کر ساتھ لکھتے ہے یہ ہے ریاستِ مدینہ اور اچھے کام کرنے پر ایسا نہیں کرتے لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی یہ لوگ انجانے میں یا جان بھوجھ کر ریاستِ مدینہ کا مذاق کیوں اڑا رہے ہے یہ ایک انتہائی افسوسناک عمل ہے

اب حکومت کا نعرہ سیاسی تھا یا حقیقی اس بحث میں نہیں جاتا
لیکن پاکستانی قوم کا کیا کردار ہے ریاستِ مدینہ میں جو کہ صرف حکومت کا کام تو نہیں ہے سب سے بڑی ذمہ داری اور بڑا کردار اس میں ہمارا ہی ہے
اپنے گریبان میں جھانک کر سوچئے گا ضرور۔۔!

پہلے خود کو بدلے ارگرد سب کچھ خود بخود بدل جائیگی
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا

🌷خوش رھے اور خوشیاں بانٹھے یہی اصل زندگی ہے🌷

ٹویٹر
‎@Salmanjani12

Shares: