اقوام متحدہ نے افغان طالبان کے 2 وزرائے تعلیم کے بیرون ملک سفرپرپابندی لگا دی
نیویارک:ایک طرف دنیا افغآن طالبان کی حکومت کوتسلیم کرنے پرغورکررہی ہے تو دوسری طرف عالمی ادارے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی طالبان پرپابندی سے متعلق کمیٹی نے طالبان کے وزیرتعلیم اورنائب وزیرتعلیم پرسفری پابندی عائد کردی۔
اس سلسلے میں یہ بھی خبریں گردش کررہی ہیں کہ اقوام متحدہ کی طرف سے افغآن طالبان کے وزیرتعلیم عبدالباقی حقانی اورنائب وزیرتعلیم سید احمد شاد خیل کا استثنیٰ ختم کرکے بیرون ملک سفر پرپابندی عائد کردی۔اقوام متحدہ کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کے وزیرتعلیم اورنائب وزیرتعلیم پرسفری پابندیاں وعدے کا باوجود افغانستان میں لڑکیوں کے اسکولزنہ کھولنے پرلگائی گئی ہے۔
ادھراس حوالے سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان نائب وزیراعلیٰ تعلیم لطف اللہ خیرخواہ نے اقوام متحدہ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے غیرمنصفانہ قراردیتے ہوئے کہا کہ ایسے فیصلے صورتحال کو مزید نازک بنا دیں گے۔اقوام متحدہ کی جانب سے 15 طالبان عہدیداروں پرمذاکرات کے لئے بیرون ملک سفر کے استثنیٰ کی مدت کل ختم ہوئی تھی جس کے بعد 13 طالبان عہدیداروں کے لئے سفری استثنیٰ میں دوماہ کی توسیع کی گئی ہے۔
یاد رہےکہ اس سال جنوری کے مہینے میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ رواں سال مارچ سے ملک بھر میں لڑکیوں کے تمام اسکولز کھول دیئے جائیں گے۔ لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے انتظامات آخری مراحل میں ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امارت اسلامیہ افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات اور طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک انٹرویو میں کہاتھا کہ لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے انتظامات آخری مراحل میں ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے نئے سال کا آغاز 21 مارچ سے ہوتا ہے اور رواں برس نئے سال کی شروعات سے لڑکیوں اور خواتین کے لیے اسکول کالجز کھول دیئے جائیں گے لیکن مخلوط تعلیم کی ہر گز اجازت نہیں ہو گی۔
افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات نے کہا تھا کہ ہم لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں تاہم مخلوط نظام تعلیم کے خاتمے اور علیحدہ عمارتوں کے انتظامات سمیت نصاب میں تبدیلی کے باعث لڑکیوں کے اسکول کھولنے میں کچھ وقت لگا۔
واضح رہے کہ افغانستان کے منجمد فنڈز کی بحالی کے لیے طالبان حکومت پر لڑکیوں کے اسکول کھولنے اور خواتین کو ملازمتوں پر آنے کی اجازت دینے کے لیے شدید دباؤ تھا اور طالبان نے عالمی قوتوں سے لڑکیوں کے اسکول کھولنے کا وعدہ کیا تھا۔طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ساتویں کلاس سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد تھی تاہم کچھ صوبوں میں پرائمری اسکول کھلے ہوئے ہیں۔