وفاقی وزیر اور ترجمان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز شازیہ مری نے کہا ہے کہ آج ملک کی تاریخ کا سنہری دن ہے ،صدر آصف علی زرداری نے آج کے دن صدر کو حاصل اختیارات پارلیمان کو واپس کیے تھے، اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صدر آصف علی زرداری نے جمہوریت کو مضبوط کیا،آج کے دن خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے عوام کو شناخت ملی ،صدر آصف علی زرداری نے صوبوں کو خودمختاری دیکر وفاق کو مضبوط کیا،اٹھارہویں آئینی ترمیم وفاق اور تمام اکائیوں کے درمیان میثاق ہے، اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ثمرات کی وجہ سے پارلیمنٹ تیسری بار اپنی مدت پوری کر رہی ہے پارلیمنٹ بااختیار ہوگی تو باہر سے مداخلت ختم ہوگی
19 اپریل یوم 18 ویں ترمیم ،18ویں ترمیم کی منظوری کو آج 13 برس مکمل ہوگئے ،8 اپریل 2010 کو قومی اسمبلی نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کی منظوری دی۔ 15 اپریل 2010 کو سینیٹ آف پاکستان نے اسے منظور کیا ۔ 19 اپریل 2010 کو صدر مملکت نے اٹھارویں آئینی ترمیم کی حتمی منظوری دی ،اٹھاوریں آئینی ترمیم میں جنرل ضیاء کا نام بطور صدر آئین کے متن سے ہٹا دیا گیا ہے۔صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھا گیا، پرویز مشرف کے ذریعہ پیش کردہ 17 ویں آئینی ترمیم اور قانونی فریم ورک آرڈر کو منسوخ کر دیا گیا،تیسری بار وزارت عظمیٰ اور وزرائے اعلیٰ کی عہدے پر پابندی ختم کردی گئی ،آرٹیکل 6 کے تحت آئین کو معطل کرنے کو بھی غداری کے زمرے میں شامل کیا گیا۔ آرٹیکل 10 اے کے تحت غیر جانبدارانہ ٹرائیل کو بنیادی حق کا درجہ دیا گیا ہے۔آرٹیکل19 کے تحت معلومات تک رسائی کو بنیادی حق قرار دیا گیا ۔ آرٹیکل 25 کے تحت پانچ سے چودہ برس تک کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے کو آئینی تحفظ دیا گیا۔آرٹیکل 37 کے تحت سستے اور جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ،آرٹیکل 48کے تحت صدر کو وزیر اعظم کی مشاورت سے اسمبلی تحلیل کرنے کا پابند بنایا گیا ،آرٹیکل 58(2) کے تحت صدر سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس لے لیا گیا
سوشل میڈیا چیٹ سے روکنے پر بیوی نے کیا خلع کا دعویٰ دائر، شوہر نے بھی لگایا گھناؤنا الزام
سابق اہلیہ کی غیراخلاقی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے والے ملزم پر کب ہو گی فردجرم عائد؟
سوشل میڈیا پرغلط خبریں پھیلانا اورانکو بلاتصدیق فارورڈ کرنا جرم ہے، آصف اقبال سائبر ونگ ایف آئی اے
سوشل میڈیا پر جعلی آئی ڈیز کے ذریعے لڑکی بن کر لوگوں کو پھنسانے والا گرفتار
آرٹیکل 59 کے تحت ایوان بالا یا سینٹ کی نشستیں سو سے بڑھا کر ایک سو چار کر دی گئیں ،آرٹیکل 61 کے تحت سینٹ کے اجلاسوں کے دن نوئے سے بڑھا کر ایک سو دس کر دئیے گئے ۔آرٹیکل 90 کے تحت وفاق اور صوبوں کے درمیان تمام کنکرنٹ لسٹ ختم کردی گئی ۔آرٹیکل 92 کے تحت وفاقی کابینہ کی تعداد پارلیمان میں اراکین کی تعداد کا گیارہ فیصد کردی گئی۔صوبوں میں بھی کابینہ پندرہ اراکین یا گیارہ فیصد جو بھی زیادہ ہو۔وزرا اعلی وزیر اعظم کی طرح پانچ سے زیادہ مشیر تعینات نہیں کر سکیں گے۔آرٹیکل 101 کے تحت صوبائی گورنر متعلقہ صوبے کا ہی رہائشی ہو گا۔آرٹیکل 104 کے تحت صوبائی اسمبلی کا سپیکر گورنر کی غیر موجودگی میں قائم مقام گورنر مقرر ہوگا۔آرٹیکل 127 کے تحت صوبائی اسمبلی کی کم سے کم کارروائی کے دن ستر سے بڑھا کر ایک سو کر دیے گئے۔آرٹیکل 157 کے تحت وفاقی حکومت اس صوبے سے مشاورت کی پابند ہوگی جہاں آبی ذخیرہ تعمیر کیا جا رہا ہوگا۔آرٹیکل 160 کے تحت صوبوں کا حصہ آخری این ایف سی ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکے گا۔آرٹیکل 167 کے تحت صوبوں کو قومی مالیاتی کمیشن کی مقرر کردہ حد کے اندر مقامی یا بین القوامی سطح پر قرضے حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔آرٹیکل 168 کے تحت آڈیٹر جنرل کی مدت ملازمت چار سال تک محدود کر دی جائے گی۔آرٹیکل 170 کے تحت وفاق یا صوبوں کے زیر انتظام خودمختار اداروں کو آڈیٹر جنرل کے تحت لایا جائے۔آرٹیکل 172 کے تحت تیل و گیس جیسے قدرتی وسائل کا اختیار صوبے اور وفاق کے درمیان مشترکہ ہوگا۔آرٹیکل 175-اے کے تحت ججوں کی تقرری کے لئے سات رکنی کمیشن قائم کیا گیا۔آرٹیکل 213 کے تحت انتخابی کمیشنر کی تقرری کا طریقہ کار چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت کر دیا گیا ہے۔








